بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی ریاست اترپردیش میں فرقہ وارانہ لحاظ سے حساس ضلع مظفر نگر میں گزشتہ دنوں ایک شدت پسند ہندو تنظیم کرانتی سینا کے کارکنوں نے مختلف بازاروں میں مارچ کیا اور دکانداروں کو حکم دیا کہ ہندو خواتین کو مہندی لگانے کے لیے اپنے یہاں کسی مسلمان کو ملازمت پر نہ رکھیں اور اگر ایسا کوئی مسلمان ہو تو اسے فوراً نکال دیں۔
Published: undefined
کرانتی سینا کے جنرل سکریٹری منوج سینی کا کہنا تھا،”دراصل یہ مسلم نوجوان مہندی لگانے کے آڑ میں ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر محبت کے دام میں پھنسا لیتے ہیں۔ یہ دراصل 'لو جہاد‘ کو فروغ دے رہے ہیں۔" انہوں نے ہندو لڑکیوں اور عورتوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ کسی مسلمان سے مہندی نہ لگوائیں۔
Published: undefined
یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب علی شان جعفری نامی ایک مقامی صحافی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ مظفر نگر کی مرکزی مارکیٹ میں دکانوں کی 'چیکنگ‘ کر رہے ہیں۔
Published: undefined
کرانتی سینا سے وابستہ یہ لوگ دکانداروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے یہاں کسی مسلمان کو نہ تو مہندی لگانے کے لیے رکھیں اور نہ ہی ہیئر ڈریسر کے طور پر۔ ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک دکاندار ان ہندو کارکنوں سے پوچھ رہا ہے، ”ہم کسی کو مذہب کی بنیاد پر ملازمت پر کیسے رکھ سکتے ہیں؟"
Published: undefined
حالیہ عرصے میں اتر پردیش سمیت ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں۔ مظفر نگر کا واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 51 افراد کے خلاف کیس درج کر لیا۔ ان میں گیارہ نامزد اور چالیس نامعلوم افراد ہیں۔
Published: undefined
مظفر نگر (شہر) کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) ارپِت وجیہ ورگیہ نے کہا کہ پولیس بازاروں میں مسلسل گشت کر رہی ہے،''امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والوں کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے گی۔‘‘
Published: undefined
ایس پی وجیہ ورگیہ نے بتایا،”ایک مہندی اسٹال کے مالک پرکاش چندرا نے شکایت درج کرائی تھی کہ اس نے ہندوؤں کے تہوار تیج پر مہندی لگانے کا ایک اسٹال لگایا تھا۔ ایک گروپ ان کی دکان پر آیا اور پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں چندرا نے انہیں بتایا کہ تیج کا تہوار آنے والا ہے اور اس موقع پر عورتیں مہندی لگواتی ہیں۔ اس پر وہ لوگ آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے چندرا کی تمام چیزیں پھینک دیں، اسٹال کو توڑ دیا اور کہا کہ مہندی لگانے کا کوئی اسٹال نہیں لگایا جائے گا۔"
Published: undefined
پرکاش چندرا نے پولیس میں درج اپنی شکایت میں مزید کہا،”جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر ان لوگوں کی اجازت کے بغیر اسٹال لگایا تو وہ جان سے مار ڈالیں گے۔ ان لوگوں نے مجھے گالیاں بھی دیں اور دھکے بھی دیے۔"
Published: undefined
گوکہ اس واقعے کو تین دن گزر چکے ہیں اور پولیس نے شکایت بھی درج کرلی ہے تاہم ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ایس پی وجے ورگیہ کا کہنا تھا، ”انکوائری ہو رہی ہے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔"
Published: undefined
اترپردیش کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے واقعات پر اکثر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کانپور کا ایک واقعہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے جس میں ایک مسلم رکشہ ڈرائیور کو بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے بعض شدت پسند ہندو پیٹ رہے ہیں اور اسے 'جے شری رام‘ کے نعرے لگانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ اس کی پانچ سالہ بچی بھی ساتھ میں ہے جو گڑگڑا رہی ہے اور لوگوں سے اپنے والد کو نہیں مارنے کے لیے کہہ رہی ہے۔ حالانکہ پولیس نے بعد میں اس 35 سالہ شخص کو بچا لیا تاہم بعض افراد پولیس کی موجود گی میں بھی اسے مارتے رہے۔
Published: undefined
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کرانتی سینا دراصل ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سینکڑوں ذیلی تنظیموں میں سے ایک ہے، جو پورے بھارت میں آر ایس ایس کے نظریا ت کو عملی طورپر نافذ کرنے میں سرگرم ہیں۔
Published: undefined
ان میں یوپی کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کی قائم کردہ ہندو یووا واہنی، بجرنگ دل،وشو ہندو پریشد، ون واسی کلیان آشرم، ابھینو بھارت، سری رام سینے، راجپوت کرنی سینا وغیرہ شامل ہیں۔ سن 2014 میں بی جے پی کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ان تنظیموں کی سرگرمیاں مزید تیز ہو گئی ہیں اور ان کے کارکنان زیادہ بے خوف ہو گئے ہیں۔
Published: undefined
گوکہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا ڈی این اے ایک ہی ہے تاہم گؤ کشی، لو جہاد، تبدیلی مذہب وغیرہ کے نام پر بالخصوص مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے واقعات بھی مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔ آر ایس ایس ان معاملات کو نظر انداز کرتی رہتی ہے۔
Published: undefined
صحافی اسمرتی کوپیکر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے،''چونکہ دائیں بازو کی بیشتر ہندو تنظیمیں کسی نہ کسی صورت میں آر ایس ایس سے تعلق رکھتی ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی خود بھی آر ایس ایس کے کارکن رہ چکے ہیں لہذا یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ پولیس شدت پسندہندو عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔بالخصوص اس صورت میں جبکہ مبینہ 'ملک مخالفین‘ کو گولی مارنے کا سرعام اعلان کرنے والے انوراگ ٹھاکر جیسے لیڈروں کو مودی حکومت میں کابینہ درجے کے وزیر کا عہدہ ملا ہو۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined