جرمنی کی تاریخ میں کم عمر بچوں کے ساتھ آن لائن جنسی تشدد کا سب سے بڑا کیس عدالت میں پیش ہو چکا ہے۔ اس کیس کے ایک مرکزی ملزم پر الزام ہے کہ اس نے اپنی نو عمر بیٹی کے ساتھ جنسی تشدد کیا اور اس کی ویڈیوز آن لائن چیٹ گروپوں میں شیئر بھی کیں۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
جرمنی میں عام لوگوں کے نجی کوائف سے متعلق قوانین کی وجہ سے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم باپ نے اپنی ہی بیٹی کو اکسٹھ مرتبہ جنسی حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات اس وقت شروع ہوئے، جب اس کی بیٹی کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں تھی۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ڈورتھی چینسکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بے شک یہ جرمنی میں بچوں پر جنسی تشدد کرنے والا سب سے بڑا بین الاقوامی آن لائن گروہ ہے لیکن ایسا نہیں کہ اپنی نوعیت کا یہ واحد گروہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ملوث ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے اور اسی طرح کے دیگر مجرمانہ گروپوں کو بھی منظر عام پر لانا چاہیے۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
جرمن پولیس کے مطابق شبہ ہے کہ اس نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔ پولیس کو اس کیس کے حوالے سے کئی شواہد ملے ہیں، جس کی بنیاد پر کچھ افراد کے خلاف کارروائی جاری ہے اور مزید لوگوں کے نام یا تفصیلات منظر عام پر آنے کی امید ہے۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
ڈورتھی چینسکی کے مطابق کم عمر بچوں کی طرف جنسی میلان ایک بیماری ہے، جس کا سدباب انتہائی ضروری ہے۔ ایسے ذہنی رجحانات رکھنے والے افراد بچوں کو شہوانی انداز میں چھوتے ہیں، سیکس پر گفتگو کرتے ہیں، فحش مواد دکھاتے ہیں، تشدد کرتے ہیں اور جنسی زیادتی بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ بچوں کی فحش تصاویر اور ویڈیو آن لائن بھی شیئر کرتے ہیں اور کچھ لوگ صرف بچوں کی ایسی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ہی لذت محسوس کرتے ہیں۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
ڈورتھی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف جرمنی کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسے ذہنی مریض پائے جاتے ہیں، جو بچوں کے ذریعے اپنی بیمار جنسی خواہشات کی تکمیل کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طور پر بچوں کے خلاف ایسی کریہہ کارروائیاں کرنے والے افراد ان بچوں کے والدین کے بھروسے کے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے والدین کو چوکنا رہنا چاہیے۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
ڈورتھی چینسکی نے مزید کہا کہ جرمنی میں بچوں پر جنسی تشدد ابھی تک ایک شجر ممنوعہ ہے، جس پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کئی والدین اس طرح کے تشدد کو رپورٹ ہی نہیں کرتے، جس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ والدین کو یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ کہیں وہ کسی پر غلط الزام ہی نہ دھر دیں۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
ڈورتھی چینسکی کے مطابق اگر والدین کو شک بھی گزرے تو انہیں اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کرنا چاہیے اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے گائیڈ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب انتہائی کم عمر بچوں کو اس طرح کے حملوں کا سامنا ہوتا ہے، تو اس صورت حال سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس تناظر میں ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ بالخصوص والدین کا کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
جرمنی میں اس اسکینڈل کی زد میں آنے والے بچے اب ادھیڑ عمر میں پہنچ چکے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چالیس سال قبل اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نقوش اب تک اس کے ذہن سے مٹ نہیں سکے۔ یہ شخص اب بھی اپنی اندوہناک یادوں کے ساتھ زندہ ہے۔ تاہم اس کی کوشش ہے کہ مزید کسی بچے کو ایسی دلدل میں گرنے نہ دے۔ اسی لیے اس نے بچوں کے تحفظ کے لیے ایک ادارہ بنایا ہے، جس کے ذریعے وہ والدین اور بچوں کو شعور و آگاہی دینے کا کام کرتا ہے۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM IST
تصویر: پریس ریلیز