سماج

ان گنت کہانيوں والے ملک پاکستان ميں کہانياں سنانے والوں کی قدر نہيں

اپنی تاريخ اور متنوع ثقافت کی بدولت پاکستان ايک ايسا ملک ہے، جہاں کہانيوں کی تو بھرمار ہے مگر کہانی سنانے والوں يا حقيقت پر مبنی فلميں بنانے والوں کی کوئی قدر نہيں۔ فلم سازی کی صنعت کا ايک مختصر جائزہ

ان گنت کہانيوں والے ملک پاکستان ميں کہانياں سنانے والوں کی قدر نہيں
ان گنت کہانيوں والے ملک پاکستان ميں کہانياں سنانے والوں کی قدر نہيں 

عمر نفيس شام کے وقت اکثر پرانے لاہور ميں ايک مناسب مقام تلاش کر کے چائے کا ايک کپ پی ليتے ہيں تاکہ زندگی کے تمام رنگوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ شہر کے اس حصے کو اگر ملک ميں ثقافت کا مرکز کہا جائے، تو شايد غلط نہ ہو گا۔ ايک وقت مغل دور کا صدر مقام شہر لاہور آج کافی بدل چکا ہے مگر شہر کا پرانا حصہ آج بھی گزری شان و شوکت کی ياد دلاتا ہے۔ عمر نے اپنا بچپن اسی علاقے ميں گزارا، کہانيوں اور کہانياں سنانے والوں ميں۔ اسی ليے يہ کوئی تعجب کی بات نہيں کہ فلم ساز عمر نفيس کی فلموں کی اکثریت اسی علاقے يا يہاں کی کہانيوں پر مبنی ہوتی ہيں۔

Published: undefined

عمر نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ''شہر کے اس حصے ميں ہر شخص، ہر سڑک، ہر موڑ ايک کہانی ہے، کسی فلمساز کو اس سے زيادہ اور کيا چاہيے۔‘‘ عمر لاہور کے معروف نيشنل کالج آف آرٹس کا گريجوٹيٹ ہے اور اس کا شمار پاکستان کے نوجوان ابھرتے ہوئے فلمسازوں ميں ہوتا ہے۔ عمر دستاويزی فلميں بناتا ہے۔ يہ ايک ايسا ميدان ہے جس کی طرف حاليہ برسوں ميں کئی نوجوانوں نے رخ کيا مگر کسی نہ کسی وجہ سے فلمسازی کی يہ شاخ ملک ميں وہ مقام حاصل نہ کر سکی جس کی توقعات تھيں۔

Published: undefined

پاکستان ميں دستاويزی فلموں کی کوئی مارکيٹ نہيں

Published: undefined

پاکستان ميں ڈاکومينٹری فلم سازوں کے ليے سب سے بڑی کاميابی سن 2012 ميں اس وقت آئی، جب شرمين عبيد چنوئے آسکر ايوارڈ کی حقدار قرار پائيں۔ اس کے بعد توقع تھی کہ ايسی کاوشيں فروغ پائيں گی مگر يہ نہ ہو سکا۔ پچھلی دو دہائيوں ميں پاکستان ميں ٹيلی وژن اور اخبارات ميں اشتہارات ميں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، کمرشل فلسازی کی صنعت نے بھی خاصا فروغ پايا مگر دستاويزی فلموں کی صنعت اس سے مستفيد نہ ہو سکی۔

Published: undefined

اسلام آباد کے فلم ساز اور يو ٹيوبر عبدالباسط نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ''حقيقت پر مبنی مواد يا دستاويزی فلموں کی پاکستان ميں کوئی مارکيٹ نہيں۔ يہاں صرف ٹيلی وژن کمرشل، ڈرامہ سيريل، ٹيلی فلم وغيرہ چلتی ہيں۔‘‘

Published: undefined

کراچی ميں مقيم فلم ساز احمر سليم کے خيالات بھی کچھ ايسے ہی ہيں۔ ''ہوتا يہ ہے کہ سالہا سال لگا کر فلم سازی پڑھتے ہيں اور خواب ديکھتے ہيں کہ ايک دن آپ بڑی بڑی کہانياں منظر عام پر لائيں گے۔ مگر حقيقت ذرا مختلف ہے۔‘‘ سليم نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ گريجويشن کے ايک سال بعد ہی اس نے دستاويزی فلم سازی چھوڑ کر کمرشل فلمیں بنانے والی ايک ايجنسی کھول لی تھی کيونکہ مالی اعتبار سے يوں ہی گزارا ممکن تھا۔

Published: undefined

پاکستان کے نامور براڈکاسٹر عمران شيروانی کا اس بارے کہنا ہے کہ پاکستان ميں دستاويزی فلميں دکھانے کے ليے مواقع نہ ہونے کے برابر ہيں، ''ٹيلی وژن دستاويزی فلموں کے ليے مناسب پليٹ فارم نہيں۔ ايسا اس صورت ہی ممکن ہے جب دستاويزی فلموں کو سلسلہ وار انداز ميں پيش کيا جائے، جو شايد نجی چينلز کو کافی مہنگا پڑے گا۔‘‘

Published: undefined

کمرشل سنیما کے مختلف ادوار

Published: undefined

دوسری جانب پاکستان ميں کمرشل فلم سازی کی صنعت مختلف ادوار سے گزری ہے۔ فلم ساز مشتاق غزدار نے اپنی کتاب 'پاکستان سنیما 1947ء سے 1997ء تک‘ ميں آزادی کے بعد سے تمام دہائيوں کا جائزہ ليا۔ ابتدائی دہائی کے بعد سن 1957 سے سن 1967 تک کے عرصے کو فلمی صنعت کے ليے 'تبديلی‘ کا عرصہ قرار ديا جاتا ہے، جبکہ اس سے اگلی دہائی کے دوران فلموں کا معيار خراب ہوتا گیا۔ پھر سن 1987 سے سن 1997 تک کا عرصہ جمہوريت کی واپسی کے ساتھ فلمی صنعت کے ليے بھی اچھا ثابت ہوا۔

Published: undefined

ساتھ ہی سن 1990 کی دہائی ميں کيبل نيٹ ورک کے پھيلاؤ کے ساتھ ملک ميں بھارتی انٹرٹينمنٹ مواد کی مانگ بہت زيادہ بڑھی۔ نئی صدی کے آغاز پر پاکستان ميں اليکٹرانک ميڈيا کو وسعت دينے کی پاليسی اپنائی گئی۔ اچانک ہر طرف ٹی وی چينلز کی بھرمار ہوئی اور ساتھ ہی کئی فلم اسکول بھی کھلے۔ اس دوران چند فلميں ضرور مشہور ہوئيں، مثال کے طور پر سن 2007 ميں شعيب منصور کی فلم خدا کے ليے، مگر مجموعی صورتحال زيادہ خاص نہ رہی۔

Published: undefined

گزشتہ دہائی البتہ کمرشل فملوں کی دہائی ثابت ہوئی۔ کئی ٹيلی فلميں اور ٹيلی وژن چينلز کی تيار کردہ فلميں نمائش کے ليے پيش کی گئيں اور ان کی ملک اور بيرون ملک ميں شہرت قابل تعريف رہی۔ تاہم يہ تمام تر کاميابی زيادہ تر کمرشل فلموں کے حصے ميں آئی۔

Published: undefined

فلم ساز اور ڈيجيٹل دور

Published: undefined

پچھلے چند برسوں ميں نہ صرف پاکستان بلکہ دنيا بھر ميں سوشل ميڈيا تيزی سے ابھرا۔ عمر نفيس ايک طريقے سے اسے منفی مانتے ہيں، ''مسئلہ يہ ہے کہ اب ويڈيو کے کامياب يا ناکام ہونے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اسے کتنی مرتبہ ديکھا گيا يا اسے کتنے کلکس ملے۔ جو لو گ سالہا سال محنت کر کے فلسازی سيکھتے ہيں، انہيں اسی صف ميں کھڑا کر ديا جاتا ہے جنہيں تکنيک کا کچھ نہيں پتا مگر وہ کامياب اس ليے ہيں کيونکہ ان کا کوئی کلپ چل گيا۔‘‘

Published: undefined

دوسری جانب عبدالباسط کا نظريہ مختلف ہے۔ وہ کہتے ہيں کہ اگر فلم فیسٹیولز کی کمی ہے، تو ڈيجيٹل پليٹ فارمز فلم سازوں کے ليے بہترين موقع ہيں۔ ليکن عبدالباسط کا يہ بھی کہنا ہے کہ يہ عمل پيچيدہ ہے،''سنسرشپ، حکومتی کنٹرول، غير واضح اور بدلتی ہوئی پاليسياں اور ماضی ميں يو ٹيوب پر پابندی اس کی راہ ميں رکاوٹيں ہيں۔‘‘

Published: undefined

نيٹ فلکس جيسے پليٹ فارمز نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے تمام ملکوں ميں نوجوان با صلاحيت پروڈيوسرز کے ليے موقع فراہم کرتے ہيں تاکہ وہ اپنی کاوشوں کو منافع بخش بنا سکيں۔ پڑوسی ملک بھارت کے کئی فيچر فلمیں اب نيٹ فلکس کا حصہ ہيں اور گو کہ پاکستان کی بھی چند پروڈکشنز اس ويڈيو اسٹريمنگ پليٹ فارم پر ہيں، مگر اس سے کہيں زيادہ کی گنجائش ابھی موجود ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined