ایک نوجوان فلسطینی لڑکی کے 'غیرت کے نام پر ہونے والے قتل‘ کی وجہ سے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ سڑکوں پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مغربی کنارے میں گزشتہ کئی دنوں سے خواتین اسراء غريب کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
اسراء غريب کی ہلاکت کی وجہ انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی وہ تصویر بنی، جو اس نے اپنے ہونے والے منگیتر کے ساتھ پوسٹ کی تھی۔ دونوں خاندان منگنی کے لیے تیار تھے۔ اسراء کے والدین نے رشتے کے لیے ہاں بھی کر دی تھی لیکن ابھی باقاعدہ منگنی نہیں ہوئی تھی۔
Published: undefined
اسراء ایک میک اپ آرٹسٹ تھی اور اس فیشن بلاگر کے انسٹاگرام پر بارہ ہزار سے زائد فالورز بھی تھے۔ لڑکی کی دوستوں کا کہنا ہے کہ تصویر پوسٹ کیے جانے کے بعد اس کے بھائیوں اور کزنوں نے والدین کو بتایا کہ ان کے خاندان کی 'عزت مٹی میں ملا‘ دی گئی ہے۔ گھر والوں کے کہنے پر ایک بھائی نے اسراء کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے گھر کی دوسری منزل سے نیچے گر گئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس سے اسراء کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا۔
Published: undefined
اسراء نے ہسپتال سے بھی اپنے زخموں کی تصاویر انسٹاگرام پر پوسٹ کر دیں اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ وہ ہمت نہیں ہارے گی، ''اگر مجھ میں ہمت نہ ہوتی تو میں کل ہی مر چکی ہوتی۔ اللہ قیامت کے دن ان سے پوچھے گا، جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا۔‘‘
Published: undefined
اسراء کے رشتہ داروں اور گھر والوں کو اس پر بھی غصہ آیا اور انہوں نے ہسپتال میں ہی اسے دوبارہ مارا پیٹا۔ بعدازاں اسے والدین کے گھر منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ بائیس اگست کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کے منہ میں چلی گئی۔ اسراء کے والدین کا کہنا ہے کی وہ اس کی موت دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوئی لیکن انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس موقف پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اسراء کے خاندان کے تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔
Published: undefined
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطین میں 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو جرم قرار دیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ نہ صرف فلسطین بلکہ عرب دنیا میں غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدامات کو روکنے کے لیے مزاحمت بڑھ رہی ہے۔ ایسے ہی احتجاجی سلسلے کے بعد لبنان نے سن دو ہزار گیارہ میں اس قانون کو ختم کر دیا تھا، جو ایسے کیسز میں نرمی پیدا کرتا تھا۔ اس کے بعد سن دو ہزار سترہ میں تیونس اور اردن نے بھی قوانین میں تبدیلی لاتے ہوئے 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایسے کیسز کی تفتیش قتل کی واردات کے قانون کے تحت کی جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز