بروز بدھ دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد نے اپنے ایک پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ ارشد شریف کو قتل کرنے سے پہلے ان پر بدترین تشدد کیا گیا اور ان کی تین انگلیوں کے ناخن نکالے گئے ہیں جب کہ جسم کے دوسرے حصوں پر بھی تشدد کیا گیا۔ اس خبر نے نہ صرف ملک میں رہنے والے صحافیوں میں خوف پیدا کردیا ہے بلکہ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی صحافی بھی عدم سلامتی کے خوف میں مبتلا ہو جائیں گے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ پاکستان متعدد بار صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک کی صف میں رہا ہے۔ فریڈیم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق دوہزار بارہ سے دوہزار بائیس تک پاکستان میں ترپن صحافی قتل ہوئے ہیں جب کہ کئی خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ گئے ہیں اور کئی دوسروں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ طاقت ور عناصر کے کہنے پر صحافیوں کو نوکریوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
Published: undefined
کئی صحافیوں کا خیال ہے کہ اس سے خوف اور عدم سلامتی کا احساس بڑھے گا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ٹارچر کی خبر صحافیوں کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صحافیوں کو پہلے بھی ملک میں ٹارچر، دھونس، دھمکی اور حراسانی کا نشانہ بنایا گیا لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستانی صحافی کو ایک دوسرے ملک میں قتل کیا گیا اور اب ٹارچر کی خبر بھی آئی ہے۔ یہ بات نہ صرف ہمارے لیے بلکہ بیرون ملک مقیم صحافیوں کے لیے بھی باعث تشویش ہے، جن میں احساس عدم تحفظ بڑھے گا۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے ماروی سرمد، رضا رومی، گل بخاری، صابر شاکر سمیت کئی صحافی مختلف وجوہات کی بنا پر بیرون ملک مقیم ہیں۔
Published: undefined
انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی صحافتی آزادی پر قد غنیں ہیں اور اب اس واقعے کے بعد سلیف سینسر شپ مزید بڑھے گی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد بٹ کا کہنا کہ پہلے میڈیا مالکان کی حد تک بہت سیلف سینسر شپ تھی، اب یہ صحافیوں تک ہوگی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے یہ ہوتا تھا کہ صحافی کسی خبر کی تفتیش کر لیتا تھا اور بعد میں مالکان اس خبر کو نہیں لگاتے تھے یا سینسر کرتے تھے لیکن ٹارچر کی اس خبر کے بعد صحافی تفتیشی رپورٹنگ کرتے ہوئے ڈریں گے اور ان میں سیلف سنسر شپ کا رجحان بڑھے گا۔‘‘
Published: undefined
سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے باتیں ہورہی ہیں اور یہ رپورٹ زیر گردش بھی ہے۔ جب ڈی ڈبلیو نے اس رپورٹ کو ایک ریٹائرڈ سرکاری ڈٖاکٹر کے پاس بھیج کر ٹارچر کے حوالے سے دریافت کیا، تو ان کا جواب نفی میں تھا۔
Published: undefined
اسد بٹ کا کہنا ہے کہ حکومت اب تک پوسٹ مارٹم رپورٹ کو منظر عام پر لے کر نہیں آئی ہے جس سے یہ تاثر جارہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ''اگر حکومت کو کسی طرح کا خوف نہیں ہے، تو اسے رپورٹ کو فوری طور پر منظر عام پر لانا چاہیے اور ساری صحافتی برادری کو یکجہتی کے ساتھ حکومت سے رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس بھی اس بات کے حق میں ہیں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ اس حوالے سے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں بھی کامران شاہد کے پروگرام کے ذریعے پتہ چلا کہ ارشد شریف پر ٹارچر کیا گیا ہے اور جب سے پوری صحافتی برادری میں تشویش کی لہر ہے۔ ہم تک ابھی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں پہنچی ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس رپورٹ کو فوراً منظر عام پر لایا جائے۔‘‘
Published: undefined
افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے سپریم کورٹ کو بھی پی ایف یو جے لکھ رہی ہے اور ٹارچر کے حوالے سے وہ ہر سطح پر یہ مسئلہ بھی اٹھائے گی۔ ''لیکن کیونکہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بہت سارے سوالات ہیں اور اب یہ ٹارچر کی خبر بھی آئی ہے۔ لہذا ان سوالات کے جوابات کے لیے ایک شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ہماری اقوام متحدہ اور صحافیوں کی عالمی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے بین الاقوامی تحقیقات کے لیے راستہ ہموار کریں۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں یہ عام تاثر ہے کہ کیونکہ صحافی اور صحافتی تنظیمیں مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتی ہیں، اس لیے ارشد شریف کے قتل اور اب ٹارچر کی خبروں پر صحافتی برادری کا بھرپور ردعمل نہیں آیا ہے۔ واضح رہے ارشد شریف، عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم سمیت بے شمار صحافیوں کو پی ٹی آئی کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ ابصار عالم اور جیو گروپ پر ان کے ناقدین نواز شریف کے حمایتی ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
Published: undefined
تاہم افضل بٹ اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ''بہت سارے معاملات ایسے ہوتے ہیں جس میں ہمیں مرحوم صحافی کے گھر والوں کی خواہشات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے اور ان کے کہنے کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ اس قتل میں بہت سارے ابہام ہیں، جو بندہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اس نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ہیں۔ لیکن ہم پہلے دن سے ہی فیملی کے ساتھ تھے اور ہم نے اس پر احتجاج بھی کیا اور کانفرنس بھی کی۔ ہم اب اس ٹارچر کے معاملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور ہر پلیٹ فارم پر اس کو اٹھائیں گے۔‘‘
Published: undefined
مظہر عباس پی ایف یو جے کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ''بہت سارے سوالات جواب طلب ہیں۔ اس لیے صحافتی تنظیموں کا ردعمل بھی اسی کے مطابق تھا اور وہ انتظار کر رہے تھے کہ اس کے حوالے سے حقائق سامنے آئیں۔‘‘
Published: undefined
جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کے خیال میں اس واقعے سے صحافیوں میں خوف کی فضا پیدا ہو گئی، وہیں مظہر عباس پُرامید ہیں کہ صحافی برادری اس خوف کو توڑے گی۔ '' صحافیوں کو ماضی میں بھی بہت ساری مشکلات اور خطرات کا سامنا رہا۔ انہوں نے جیل کاٹی، کوڑے کھائے اور تمام طرح کی مشکلات کا سامنا کیا لیکن انہوں نے بہادری سے ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کیا اور مجھے اب بھی یقین ہے کہ وہ تمام طرح کے چیلنجز کے لیے تیار ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز