بھارتی حکام نے صحافی محمد زبیر کو پیر کے روز دارالحکومت نئی دہلی سے گرفتار کرلیا۔ حکام نے ان پر سن 2018 میں اپنے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ مبینہ طور پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اورفرقہ واریت کو ہوا دینے اور منافرت پیدا کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
Published: undefined
محمد زبیر فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ 'آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی ہیں۔ وہ وزیراعظم نریندر مودی حکومت کی بعض پالیسیوں اور پروگراموں پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ ہندو انتہاپسندوں کے نفرت آمیز تقریروں کو بھی مسلسل اجاگر کرتے رہے ہیں اور بھارت میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مبینہ تفریق آمیز سلوک کے حوالے سے مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔
Published: undefined
حقوق انسانی کی تنظیموں، سول سوسائٹی، میڈیا سے وابستہ اداروں، اہم شخصیات نیز اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے بھی محمد زبیر کی گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے۔
Published: undefined
آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا کا کہنا ہے کہ زبیر کودہلی پولیس نے غیر قانونی طورپر گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے گوکہ انہیں سات دن کے لیے اپنی تحویل میں لینے کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے صرف ایک دن کی تحویل منظور کی۔ عدالت نے مزید حکم دیا کہ زبیر کو منگل کے روز ہی کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔
Published: undefined
بھارتی میڈیا کے مطابق زبیر کو ٹوئٹر کے ایک صارف کی شکایت پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سن 2018 میں ایک ٹوئٹ کیا تھا جس سے ہندوؤں کے بھگوان سمجھے جانے والے ہنومان کی مبینہ طور پر توہین ہوتی ہے اور یہ بھارت میں مذہبی ہم آہنگی قانون کے خلاف ہے۔
Published: undefined
دلچسپ بات یہ ہے کہ زبیر کے ٹوئٹ میں جس تصویر کی بنیاد پر ان کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا گیا ہے وہ معروف فلم ساز ہرشی کیش مکھرجی کی کلاسیکل فلم 'کسی سے نہ کہنا‘ کے ایک سین سے لی گئی ہے۔ اور بھارت کے سینسر بورڈ نے اس سین پر کسی اعتراض کے بغیر اسے پاس کردیا تھا۔
Published: undefined
محمد زبیر کی گرفتاری کو سیاسی اغراض پر مبنی اور ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نیز وزیر اعظم نریندرمودی کی پالیسیوں اور پروگراموں کی نکتہ چینی کرنے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کی ایک اور کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
Published: undefined
معروف سماجی کارکن اور صحافی تیستا سیتلواد کو بھی گزشتہ دنوں پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔ وہ اس وقت جیل میں ہیں۔ تیستا سیتلواد نے گجرات میں سن2002 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف عدالتوں میں متعدد کیس دائر کیے تھے۔ انہوں نے ان فسادات کے لیے اس وقت ریاست کی مودی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
Published: undefined
دائیں بازو کے شدت پسند ہندو گروپوں کے نشانے پر رہنے والی صحافی رعنا ایوب نے بھی زبیر کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا،''فیک نیوز اور بھارت میں منافرت پھیلانے والی مشینری کا اکثر پردہ فاش کرنے والے صحافی محمد زبیر گرفتار کرلیے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا کہ بھارت میں ان لوگوں کو سزائیں دی جارہی ہیں جو سماجی اور سیاسی برائیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
Published: undefined
بھارت میں ڈیجیٹل نیوز میڈیا کی تنظیم 'ڈیجی پب‘ نے ان صحافیوں کو گرفتار کرنے کے لیے ''سخت قوانین ‘‘ کے استعمال کو ''غیر منصفانہ‘‘ قراردیا جو حکومتی اداروں کے غلط استعمال پر نظر رکھتے ہیں۔
Published: undefined
متعدد سیاسی جماعتوں نے بھی محمد زبیر کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے اپنے ٹوئٹ میں تحریر کیا ''ایسا ہر شخص جو بی جے پی کی منافرت، جھوٹ اور منافقت کو اجاگر کرتا ہے وہ ان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ حق کی ایک آواز کو گرفتار کرنے سے مزید ایسی ہزاروں آوازیں اُٹھائی جائیں گی۔‘‘
Published: undefined
ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے کہا کہ دہلی پولیس اپنے '' آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ان کے سامنے سرنگوں ہوگئی ہے۔‘‘ انہوں نے اس حوالے سے بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کا بھی ذکر کیا جنہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف اہانت آمیز بیانات دیے تھے اور جس کے بعد ملک بھر کے علاوہ خلیجی اور دیگر ملکوں سے مذمت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تاہم نوپور شرما کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ دہلی پولیس براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور وہ وزیر داخلہ امیت شاہ کو جواب دہ ہے۔
Published: undefined
مودی حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ زبیر کی گرفتاری بھارت میں اظہاررائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف مودی حکومت کی بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ سلسلہ مئی 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا۔
Published: undefined
میڈیا کی آزادی پر نگاہ رکھنے والی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز کے مطابق بھارت میں پریس کی آزادی کی رینکنگ جو سن 2021 میں 142 تھی وہ اس برس مزید گر کر 150 پر پہنچ گئی ہے۔
جاوید اختر (روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز