سماج

آرایس ایس کے اہم اجلاس میں جناح کی تصویر کیوں؟

آر ایس ایس پاکستان کے قائد محمد علی جناح کو بھارت کی تقسیم کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ تاہم اس نے اپنے آئندہ سالانہ اجلاس نمائندگان میں ایک تصویری نمائش میں جناح کو بھی دو سو نامور شخصیات میں شامل کیا ہے۔

آرایس ایس کے اہم اجلاس میں جناح کی تصویر کیوں؟
آرایس ایس کے اہم اجلاس میں جناح کی تصویر کیوں؟ 

ہندو قوم پرست جماعت اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے 'پرتینیدھی سبھا'(مجلس نمائندگان) کا سالانہ اجلاس 11 تا 13 مارچ ریاست گجرات میں احمد آباد شہر کے پیرانہ گاؤں میں منعقد ہورہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ ان کی کابینہ کے متعدد سینیئر وزراء اور آر ایس ایس کے قائدین اجلاس میں شرکت کریں گے۔

Published: undefined

اس اجلاس کے دوران مختلف پروگراموں کے علاوہ ایک تصویری نمائش بھی لگائی گئی ہے جس میں ایسے 200 'ویئکتی وشیش' (نامور شخصیات) کو شامل کیا گیا ہے جن کا تعلق گجرات سے رہا ہے اورجنہوں نے تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ جناح سمیت جن اہم شخصیات کو تصویری نمائش میں جگہ ملی ہے ان میں مہاتما گاندھی، دھیرو بھائی امبانی، معروف تاجررتن ٹاٹا اور عظیم پریم جی، کرکٹر وینو مانکڈ، بالی وڈ اداکار سنجیو کمار، اداکارہ پروین بابی، ڈمپل کپاڈیہ اور بھارت کے خلائی پروگرام کے بانی وکرم سارا بھائی شامل ہیں۔

Published: undefined

محمد علی جناح کے آباواجداد کا تعلق بھارت کے موجودہ گجرات ریاست میں راجکوٹ ضلع کے موتی پنیلی گاؤں سے تھا۔ ان کے دادا پونجابھائی گاؤں میں کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ ان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے تھے۔ سب سے چھوٹے بیٹے جناح بھائی بعد میں سندھ منتقل ہوگئے، جہاں کراچی میں محمدعلی جناح کی پیدائش ہوئی۔

Published: undefined

جناح کی تصویر کیوں؟

ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس محمد علی جناح کی سخت مخالف ہے۔ حالیہ برسوں میں مخالفت میں مزید شدت آئی ہے۔ آر ایس ایس کے مسلسل اور منظم پروپیگنڈے کے نتیجے میں بھارت کی ہندو اکثریت کا ایک بڑا حلقہ جناح کو ہی بھارت کی تقسیم اور اس کے مصائب کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ بی جے پی انتخابات کے دوران ووٹ حاصل کرنے کے لیے جناح کے نام کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔

Published: undefined

لیکن جناح کی تصویر نمائش میں کیوں شامل کی گئی؟ اس سوال کے جواب میں اجلاس کے کوارڈینیٹر شیریش کاشیکار کہتے ہیں، ''ملک کے دیگر حصوں مثلاً شمال مشرق، مغربی بنگال یا جنوبی ریاستوں سے آنے والے نمائندگان گجرات کی تاریخ اور ثقافت سے واقف ہوسکیں، ہم نے اس لیے نمائش میں ریاست گجرات کی سماجی، سیاسی اوراقتصادی تاریخ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

Published: undefined

جب ہندو قوم پرست رہنما سے پوچھا گیا کہ آر ایس ایس تو جناح کی آئیڈیالوجی کی سخت مخالف ہے تو شیریش کا کہنا تھا، ''ہم نے ان اہم لوگوں کی تصویریں شامل کی ہیں جنہوں نے اپنے وقت میں بھارت کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ صرف اس وجہ سے کہ یہ آر ایس ایس کا پروگرام ہے، اس کا قطعی مطلب نہیں کہ صرف ان لوگوں کو شامل کیا جائے جو ہماری آئیڈیا لوجی سے اتفاق کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

جناح کی تصویر کے نیچے ان کے تعارف میں لکھا گیا ہے،''ایک بیرسٹر جو ابتدا میں زبردست محب وطن تھا بعد میں مذہب کی بنیاد پر بھارت کی تقسیم کا خالق بنا۔‘‘

Published: undefined

جناح سے آر ایس ایس کی عداوت

آر ایس ایس سیاسی اسباب کی بنا پر محمد علی جناح کی مخالفت کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں دہائیوں سے آویزاں جناح کی تصویر کے خلاف اس نے پرتشدد مہم چلائی تھی۔

Published: undefined

بی جے پی رہنما اور بھارت کے نائب وزیر اعظم کے طور پر لال کرشن اڈوانی نے جب سن 2005 میں کراچی میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی اور انہیں ''عظیم انسان‘‘ قرار دیا تو وہ آرایس ایس کے عتاب کا شکار ہوگئے اور انہیں پارٹی صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔

Published: undefined

بی جے پی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے جب اپنی سوانح عمری میں جناح کی تعریف کی تو آر ایس ایس نہ صرف ناراض ہوگئی بلکہ ان کو پارٹی سے برطرف کردیا گیا۔ ان کی کتاب کو بعض انتہا پسند ہندؤں نے سرعام جلایا اور اس وقت نریندر مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طورپر ریاست میں کتاب پر پابندی عائد کردی۔

Published: undefined

تاہم آرایس ایس اور بی جے پی کے پاس اس سوال کا کوئی مدلل جواب نہیں کہ ہندو قوم پرست جماعت کے نظریہ ساز رہنما شیاما پرساد مکھرجی نے سن 1942 میں جناح کی پارٹی مسلم لیگ کے ساتھ مل کر بنگال میں حکومت کیوں بنائی؟

Published: undefined

جلسہ گاہ بھی متنازعہ

آر ایس ایس کے مجلس نمائندگان کا اجلاس جس مقام پر ہورہا ہے وہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان متنازعہ ہے۔ مسلمان اسے ایک مزار کہتے ہیں جبکہ ہندو اسے مندر قرار دیتے ہیں۔

Published: undefined

احمد آباد سے 20 کلومیٹر دور پیرانہ گاؤں میں واقع یہ مزار ایک وقت ہندو اور مسلمانوں کے بھائی چارے کی علامت تھی۔ اس 'امام شاہ بابا سنستھا ٹرسٹ‘ کے نو رکنی مجلس منتظمہ میں سات ہندو اور دو مسلمان ہوتے تھے۔ امام شاہ کے ماننے والے ہندو خود کو 'ست پنتھی' (راہ حق پر چلنے والے) اور مسلمان خود کو 'سید‘ کہتے ہیں۔ تاہم سن 1980 کی دہائی میں اختلافات شرو ع ہوگئے اور اس وقت کئی مقدمات عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔

Published: undefined

آرایس ایس کے اجلاس کی وجہ سے اس پورے علاقے کی سکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے۔ درگاہ ٹرسٹ کے ایک منتظم سراج سید کا کہنا تھا،''عام مسلمانوں کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے درگاہ کے مسلم ٹرسٹیوں کو بھی مزار میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined