جرمنی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی تعداد چھ فیصد ہے جو کہ نسبتا کم عمر ہے۔ جرمنی میں مسلمانوں کی اوسط عمر اکتیس برس ہے۔ یوں یہ کمیونٹی باقی آبادی سے تیرہ برس کم عمر ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمن شہر ویزباڈن کی انیس سالہ طالبہ ہما اللہ کا کہنا ہے کہ اس سال گھر کے اندر روزہ رکھنا قدرے آسان ہے کیونکہ سارے گھر والے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہما کا کہنا ہے کہ پچھلے رمضانوں میں انہیں کم و بیش ایک ہی طرح کے سوالوں کا سامنا ہوتا تھا۔ اکثر لوگوں کو رمضان اور روزے کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں۔ تجسُس کے باعث ساتھی طلبہ ان سے جاننا چاہتے تھے کہ آیا روزہ رکھنا صحت کے لیے ٹھیک ہوتا ہے یا نہیں۔ وہ یہ بھی پوچھتے تھے کہ نوجوان لوگ روزے اپنی مرضی سے رکھتے ہیں یا پھر اُن پر والدین کا دباؤ ہوتا ہے۔ ہما کے مطابق اب چونکہ کلاسیں آن لائن ہیں اس لیے انہیں ایسے سوالوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
Published: undefined
Published: undefined
ایک اور سولہ سالہ طالب علم امین کا کہنا کہ روزے میں کلاس روم جانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ روزے میں مسلسل ماسک لگا کر رکھنے سے اکثر طلبا کے منہ خشک ہوجاتے تھے۔ امین کا کہنا ہے کہ ماسک کے ساتھ کلاس روم میں جانا انتہائی ناخوشگوار عمل ہے کیونکہ اپنے ہی منہ سے نکلنے والا سانس واپس پھیپھڑوں میں جاتا ہے اور جو کہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوسکتا۔
Published: undefined
Published: undefined
گھر پر رہ کر کلاسیں والے روزہ دار طالب علموں کے لیے خالی پیٹ یونیورسٹی آنے جانے کی مشکل تو کم ہو گئی لیکن زوم کی وجہ سے کام کچھ بڑھ گیا۔ بعض مسلمان روزہ دار طلبہ کے مطابق روزے میں گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا مشکل ہے اور اکثر پوری توجہ مرکوز نہیں رہ پاتی۔
Published: undefined
ہما اللہ کا کہنا ہے کہ زوم پر کلاس یا کوئی کانفرنس میں شرکت کے بعد ہوم ورک کرنے سے بہت ہی زیادہ تھکن ہو جاتی ہے اور پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
لاک ڈاؤن کے دوران مسجد میں نماز کی ادائیگی کم ہوگئی اور تراویح کے اجتماعات بھی نہیں ہو پا رہے۔ مسلم گھروں میں افطاری ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ ایک ترک خاتون یسر المظفر کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں خاندان کے میل ملاپ کا دائرہ بالکل سکڑ کر رہ گیا ہےاور افطار کی رونقیں اجڑ کر رہ گئی ہیں۔
Published: undefined
یسر المظفر کا کہنا ہے کہ افطار پر ہونے والی ملاقاتیں بچوں، بزرگوں اور رشتہ داروں کو قریب لانے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے لیکن کورونا لاک ڈاؤن نے ان مسرتوں سے بھی محروم کر دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز