سماج

جرمنی میں اسلاموفوبیا بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، رپورٹ

جرمنی کے 55 لاکھ مسلمانوں کے خلاف نفرت، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کتنا زیادہ ہے؟ جرمن وزارت داخلہ نے تحقیقات کے لیے خصوصی پینل تشکیل دیا تھا، جس نے تین سال بعد اپنی حتمی رپورٹ پیش کی ہے۔

جرمنی میں اسلاموفوبیا بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، رپورٹ
جرمنی میں اسلاموفوبیا بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، رپورٹ 

جرمن معاشرے کے ایک بڑے حصے میں مسلمان مخالف رویہ پایا جاتا ہے۔ اس کے مظاہر روز مرہ کی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔ جرمنی میں ہر دو میں سے ایک شخص مسلمان مخالف بیانات سے اتفاق کرتا ہے۔

Published: undefined

یہ نتائج جمعرات 29 جون کو مسلم دشمنی کے بارے میں آزاد ماہرین کے پینل (یو ای ایم) نے اپنی حتمی رپورٹ ’’اسلاموفوبیا۔جرمن بیلنس شیٹ‘‘ میں شائع کیے ہیں۔ ماہرین کی یہ کونسل سن 2020 میں ہناؤ میں نسل پرستانہ حملے کے بعد قائم کی گئی تھی اور اسے اسلاموفوبیا پر تحقیق کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

Published: undefined

چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نو مصنفین نے سائنسی مطالعات، جرائم کے بارے میں پولیس کے اعداد و شمار اور امتیازی سلوک کے خلاف ایجنسیوں، مشاورتی مراکز اور این جی اوز کی طرف سے مسلم مخالف واقعات کی دستاویزات کی بنیاد پر جرمن معاشرے کا جائزہ لیا ہے۔

Published: undefined

امتیازی سلوک جو تشدد کی حد تک پہنچ چکا ہے

یو ای ایم نے اسلامو فوبیا کی تعریف یوں کی ہے کہ یہ ’’مسلمانوں اور مسلمان سمجھے جانے والے افراد کے ساتھ بحیثیت مجموعی، بڑی حد تک ناقابل تغیر، پسماندہ اور خطرناک رجحانات کو جوڑے جانا ہے۔‘‘ اس طرح ، ''شعوری یا لاشعوری طور پر ایک اجنبیت یا یہاں تک کہ دشمنی‘‘ پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کثیرجہتی معاشرتی اخراج اور امتیازی رویہ جنم لیتا ہے جو کبھی تشدد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

Published: undefined

سن 2017 کے بعد سے پولیس نے جرائم کے اعداد و شمار میں اسلاموفوبیا سے متعلقہ جرائم کو الگ سے ریکارڈ کرنا شروع کر رکھا ہے۔ اس کے بعد سے توہین، اشتعال انگیزی اور دھمکیوں، املاک کو نقصان پہنچانے اور خطرناک سطح تک جسمانی نقصان پہنچانے کے سالانہ 700 تا 1000 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

Published: undefined

رپورٹ میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ جرمن معاشرے میں مسلمانوں کو [غیر مسلموں کی طرف سے] ’’سماجی انضمام کی صلاحیت سے محروم‘‘ سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ان میں شعوری طور پر فاصلہ اختیار کرنے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رابطے نہ رکھنے کا رجحان ہے۔

Published: undefined

حجاب پہننے والی مسلم خواتین بتاتی ہیں کہ وہ اکثر عوامی سطح پر دشمنی کا نشانہ بنتی ہیں۔ مسلمان مردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تعصب پایا جاتا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تشدد، انتہا پسندی اور پدرشاہی اقدار سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں ’تقویٰ‘ کو بنیاد پرستی کے ساتھ جوڑا جانا خاص طور پر پریشان کن ہے۔ جرمنی میں مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادی کے بنیادی حق پر پابندیوں کی وکالت بھی پائی جاتی ہے اور انہیں معاشرے میں مساوی شرکت کے حق سے محروم کرنے پر بھی آمادگی موجود ہے۔

Published: undefined

سیاسی جماعتوں کی ناکامی

اس رپورٹ میں جرمنی کی سیاسی جماعتوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان میں انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کا ’’واضح طور پر مسلم مخالف پروگرام‘‘ ہے۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور ریاست باویریا کی علاقائی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی قیادت میں دائیں بازو کے مرکزی بلاک میں بھی ''مسلمانوں کے خلاف پوشیدہ دشمنی کا رجحان ہے جو ان کی جانب سے اسلام کو جرمن قوم اور ثقافت کا حصہ قرار دینے میں غیر واضح موقف‘‘ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ برسراقتدار بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی)، گرین پارٹی اور نیو لبرل فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی) بھی ادارہ جاتی نسل پرستی کا تدارک کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف بائیں بازو کی پارٹی ڈی لنکے ہی ایک قابل ذکر استثنیٰ ہے۔

Published: undefined

جرمنی کی وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے رپورٹ کے نتائج کو ’تلخ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جرمنی میں بسنے والے مسلمان اور مسلم پس منظر رکھنے والے تقریبا 5.5 ملین افراد میں سے زیادہ تر جرمن شہری ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’مسلم طرز زندگی جرمنی کا فطری حصہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے متنوع معاشرے میں تمام لوگوں کو یکساں مواقع اور حقوق حاصل ہوں۔‘‘

Published: undefined

ماہرین نے اس حوالے سے متعدد سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ پہلی تجویز یہ ہے کہ ملک کے تمام لوگ اور تنظیمیں مسلمانوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ مسلمانوں کے خلاف دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وفاقی کمشنر کی تقرری کی جائے اور ماہرین کی ایک مستقل کونسل قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس حوالے سے شکایات درج کرنے اور ریکارڈ مرتب کرنے والے اداروں کے قیام اور توسیع میں مزید سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔

Published: undefined

درسی کتب پر نظر ثانی

ماہرین نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ جرمن حکومت تمام ریاستی اداروں میں ’’مسلمانوں اور مسلم شناخت سے متعلقہ‘‘ لوگوں کی شرکت کو فروغ دینے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کرے، جس کے مقررہ اہداف ہوں، اور ساتھ میں تعلقات عامہ کی مہموں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ علاوہ ازیں اساتذہ، ماہرین تعلیم اور پولیس افسران کے ساتھ ساتھ عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا اور ثقافتی اداروں کے ملازمین کو بھی اس بارے میں مزید تربیت فراہم کی جانا چاہیے۔

Published: undefined

سفارشات کے مطابق سکولوں میں مسلمانوں کے خلاف دشمنی کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی وزرائے ثقافت کی کانفرنس میں ماہرین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسلم مخالف مواد کو ہٹانے کے لیے نصاب اور نصابی کتب پر بھی نظر ثانی کریں۔ مثال کے طور پر جرمن زبان میں بنائی گئی فلموں میں اسلام کی منظر کشی سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے تقریبا 90 فیصد میں مسلمانوں کے بارے منفی تعصب پایا جاتا ہے۔

Published: undefined

رپورٹ میں کہا گیا ہے، "جن فلموں میں دہشت گردانہ حملوں، بنیاد پرستی، جنگوں اور خواتین پر جبر کے بارے میں کہانیوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، ان میں اسلام کے موضوعات کو چند تنازعات اور بحرانی موضوعات تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ جرمن زبان کی تخلیقات میں مسلم طرز زندگی کا تنوع بڑی حد نہیں دکھایا جاتا۔ جرمن اسلام کانفرنس، جس نے یو ای ایم کے کام کی مالی اعانت کی، اب ماہرین کے پینل کی حتمی رپورٹ پر غور کرے گی اور موسم خزاں میں ایک ماہرین کی کانفرنس بلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined