روسی صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے باغی گروپ واگنر کے رہنما پر غداری کے الزامات عائد نہ کرنے اور بیلاروس میں جلاوطنی کی اجازت دینے کے بعد کرایے کے یہ فوجی اتوار کے روز اپنے اڈے پر واپس چلے گئے اور اس معاہدے نے ایک غیر معمولی بحران کو جنم دینے سے روک دیا۔
Published: undefined
پوتن کے سابق اتحادی یوگینی پریگوژن کی سربراہی میں ایک پرائیوٹ آرمی ماسکو پر دھاوا بولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واگنر کی اس بغاوت نے پوتن کی حکمرانی اور توقع سے کہیں زیادہ ان کی کمزوریوں کوظاہر کردیا ہے۔
Published: undefined
اتوار کے روز بھی ماسکو میں گوکہ پولیس کی نفری کم تھی تاہم حفاظتی اقدمات موجود تھے۔ اس دوران وہاں راہگیروں کا کہنا تھا کہ انہیں اب کسی طرح کا خدشہ نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں چہل قدمی کرتی ہوئی 70سالہ لڈمیلا شمیولیوا کا کہنا تھا، "یقیناً شروع میں میں ڈر گئی تھی، مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔ " انہوں نے کہا،"ہم جنگ کی حالت میں ہیں اورجیسا کہ صدر پوتن نے کہا کہ ایک اندر کا دشمن بھی ہے جو آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔ لیکن ہم یہاں آرام سے چہل قدمی کررہے ہیں، ہمیں کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا ہے۔"
Published: undefined
پریگوژن کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی واضح اطلاعات نہیں ہیں۔ آخری مرتبہ انہیں سنیچر کے روز ایک ایس یو وی میں 'روستوف آن ڈان' سے نکلتے دیکھا گیا تھا، جہاں ان کے جنگجووں نے ایک فوجی ہیڈکوارٹر پر قبضہ کرلیا تھا۔ روانگی کے وقت کچھ لوگوں نے کار کی کھڑکی سے ان سے ہاتھ ملایا۔ان کی کار کے پیچھے بکتر بند گاڑیاں چل رہی تھیں۔
Published: undefined
ایسی اطلاعات ہیں کہ واگنر کے جنگجو ماسکو سے کوئی 400 کلومیٹر قریب تک پہنچ گئے تھے۔ دوسری طرف پریگوژن نے دعویٰ کیاتھا کہ 24"گھنٹے میں ہم ماسکو سے 200 کلومیٹر کے قریب تک پہنچ جائیں گے۔" پریگوژن کی یہ بغاوت یوکرین میں روسی فوجی آپریشن کے سلسلے میں روس کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے ساتھ ان کی دیرینہ چپقلش کا نتیجہ تھی۔
Published: undefined
پوتن نے سنیچر کے روز اس بغاوت کو غداری قرار دیتے ہوئے مجرموں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ انہوں نے مجرموں پر روس کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کا الزام بھی لگایا۔ تاہم بعد میں اسی دن انہوں نے بیلاروس کی سہولت کاری میں ہونے والے معاہدے کو قبول کرلیا۔ واگنر کی اس بغاوت کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ماسکو کو درپیش سنگین ترین سکیورٹی بحران قرار دیا جارہا ہے۔
Published: undefined
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز اس بغاوت کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ زیلنسکی نے ٹوئٹر پر کہا،"جب تک بین الاقوامی نظم بحال نہیں ہو جاتا اس وقت تک دنیا کو روس پر دباؤ ڈالنا چاہئے۔"
Published: undefined
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پریگوژن کے ساتھ ماسکو کے معاہدے نے دراصل روسی اقتدار پر صدر پوٹن کی گرفت میں کمزوری کو ظاہر کردیا ہے۔ یہ معاہدہ بیلاروس کے رہنما الیگزانڈر لوکاشینکو کی ثالثی میں ہوا اور اس کے لیے ماسکو نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ لیکن یہ پوٹن کے لیے ایک طرح سے شرمندگی کی بات ہے کیونکہ لوکاشینکو کو عام طورپر پوٹن کے جونیئر پارٹنر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
Published: undefined
زیلنسکی کے سینیئر معاون میخائیلو پوڈولیاک نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،''پریگوژن نے پوتن/ریاست کی تذلیل کی اور یہ ظاہر کیا کہ تشدد پر اب اجارہ داری نہیں رہی۔'' روس کا اصرار ہے کہ اس ناکام بغاوت کا یوکرین مہم پر کوئی اثر نہیں پڑا، اور اس نے یوکرائنی افواج کے نئے جارحانہ حملوں کو پسپا کر دیا ہے۔
Published: undefined
یوکرین کے جوانوں کا بھی کہنا تھا کہ اس بغاوت سے مشرقی یوکرین کے باخموت کے اطراف جاری جنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایک 26سالہ یوکرینی فوجی نظر کا کہنا تھا، بیشتر افراد، بیشتر فوج کو اچھی طرح معلوم ہے کہ روس کا آپریشن وہاں اب بھی جاری ہے۔"
Published: undefined
تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پوٹن غالباً واگنر کے حوالے سے اسی طرح غلط فہمی کا شکار تھے جیسا کہ انہوں نے یوکرین کے بارے میں سوچا تھا۔ آزاد تجزیہ کار کونسٹانٹین کالاچیو کا کہنا تھا، "پوتن نے پریگوژن کو کم سمجھنے کی غلطی کی جیسا کہ انہوں نے جنگ سے قبل زیلنسکی کو سمجھا تھا۔ وہ سوچتے تھے کہ پریگوژن کو صرف ایک فون کرکے آگے بڑھنے سے روک دیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں۔"
Published: undefined
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اتوار کے روز کہا کہ حالانکہ واگنر کی بغاوت کچھ دیر ہی کے لیے رہی لیکن اس نے اپنے اثرات چھوڑ دیے ہیں۔"یہ پوتن کی اتھارٹی کے لیے براہ راست چیلنج ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ روس کی حکومتی اتھارٹی میں شگاف پڑ چکا ہے۔"
Published: undefined
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بھی واگنر کے ماسکو مارچ کو "روسی خیمے میں پھوٹ کی علامت" قرار دیا۔ لیکن چین کے وزیر خارجہ قن گانگ نے حالیہ پیش رفت کو روس کا "داخلی معاملہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین پوتن حکومت کی حمایت جاری رکھے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined