سماج

کیا بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کی صحافت کو محفوظ رکھنے کی  یہ شیطانی چال ہے؟

فیس بک کے لیے گزشتہ ایک ماہ خاصا پریشان کن رہا ہے۔ آسٹریلیا میں عبوری پابندی کے بعد اب یہ ادارہ کئی جرمن پبلشرز کو بھی خبری مواد کی اشاعت پر مالی ادائیگیاں کرے گا۔

کیا بڑی ڈیجیٹل کمپنیاں صحافت کو محفوظ رکھ سکیں گی؟
کیا بڑی ڈیجیٹل کمپنیاں صحافت کو محفوظ رکھ سکیں گی؟ 

سماجی رابطے کی حامل امریکی ڈیجیٹل کمپنی 'فیس بک نیوز‘ اب جرمن پبلشرز کے نیوز میٹیریل کے بینر تلے خبروں کی اشاعت کرے گی۔ اس سلسلے کا آغاز رواں برس مئی سے کیا جا رہا ہے۔ خیال کیا گیا ہے کہ فیس بک اس ڈیل کے تحت کمزور نیوز اداروں کو مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ان کے کاروبار کو مستحکم کرنے کا پلیٹ فارم بھی مہیا کرے گا۔

Published: undefined

طویل مدتی پارٹنر شپ

Published: undefined

فیس بک کی نیوز پارٹنر شپ یورپ کے ڈائریکٹر جیسپر ڈُوب کا کہنا ہے کہ معاشی طور پر کمزور اداروں سے خبر کا مواد حاصل کرنے سے وہ مالی فائدہ اٹھا سکیں گے اور ان کے کاروبار کو طویل مدتی منفعت بھی حاصل ہو سکے گی۔ اس مناسبت سے طے پانے والی کاروباری ڈیل کا اعلان پچھلے ہفتے کیا گیا تھا۔ جیسپر ڈُوب نے اس کاروباری معاہدے کو ایک طویل مدتی منصوبہ بندی قرار دیا۔ یہ امر اہم ہے کہ فیس بک نے ایسے ہی کاروباری معاہدے امریکی اور برطانوی نیوز اداروں سے بھی کیے ہیں۔

Published: undefined

امریکا سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی سرچ انجن گوگل نے بھی نیوز میٹیریل کو شائع کرنے پر مختلف اداروں کو مالی ادائیگیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Published: undefined

ڈیجیٹل دور کا بزنس ماڈل

Published: undefined

ایسا خیال کیا جا رہا تھا کہ اشاعتی اداروں کو ڈیجیٹل دور کے نئے بزنس ماڈل کو اپنانے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا لیکن اب ایسے تمام ادارے اس نئے ماڈل کو اپنانے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اس بزنس ماڈل کو ماہرین نے 'شیطانی چال‘ قرار دیا ہے اور اس کے طویل المدتی فائدے کم اور نقصانات زیادہ خیال کیے ہیں۔

Published: undefined

اس تناظر میں کولون یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات اور میڈیا مینیجمنٹ کے پروفیسر کرسٹیان ماتھیاس ویلبراک نے اس پیش رفت کو ایک 'اسمارٹ‘ قدم قرار دیا ہے۔ ویلبراک نے ڈٰی ڈبلیو کو بتایا کہ کہ ڈیجیٹل دنیا میں جرنلزم کے شعبے میں سرمایہ کاری کا یہ نیا انداز ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ماڈل سے فیس بک اشتہاروں کی مد میں بھاری مالی فائدہ حاصل کرے گا اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں آگے بڑھتا رہے گا۔

Published: undefined

بڑھتی عدم اعتمادی

Published: undefined

دنیا بھر کے ریگولیٹری اداروں کو بھی بڑی امریکی ڈیجیٹل کمپنیوں گوگل اور فیس بک کی افزائش پاتی قوت کا احساس ہے۔ ان اداروں کا دیرینہ موقف ہے کہ یہ ڈیجیٹل کمپنیاں صحافیانہ مواد کو خریدنے کے لیے بنیادی پبلشرز کو مناسب ادائیگیاں لازمی طور پر کریں۔

Published: undefined

ابھی چند ماہ قبل تک تو یہ کمپنیاں اشاعتی اداروں کو کسی قسم کی مالی ادائیگی نہیں کرتی تھیں۔ نیوز اور اشاعتی سیکٹر میں نئے بزنس ماڈل کا ابھرنا اس ڈیجیٹل سیکٹر کا انتہائی مضبوط خطوط پر استوار ہونا خیال کیا گیا ہے کیونکہ خبری مواد کی مسلسل ترسیل ہو رہی ہے اور لوگوں کا اس مواد تک حصول کا آسان ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے۔ اشتہارات پہلے اشاعتی ادروں کو دیے جاتے تھے لیکن اب ان کا جھکاؤ سوشل میڈیا کی جانب ہے۔ سوشل میڈیا پر غلبہ بلاشبہ گوگل اور فیس بک کا ہے۔

Published: undefined

مشکل صورت حال

Published: undefined

اس ساری صورت حال میں جو مشکل ابھرنے والی ہے۔ وہ یہ ہے ک یہ ادارے انفارمیشن یا معلومات کے راستے کے گول کیپر کا کردار نبھا سکتے ہیں۔ پروفیسر ویلبراک کا خیال ہے کہ جمہوری معاشرے کے لیے مختلف جہتوں والا معلوماتی مواد مناسب ہوتا ہے تو پھر کمرشلزم کی موجودگی میں جنم لینی والی نئی صورت حال کے لیے نئے ضوابط درکار ہوں گے۔ نئے بزنس ماڈل کے حوالے سے مبصرین کہتے ہیں کہ اس نئی کاروباری صورت میں فرد واحد کے خیالات مختلف لوگوں کے مقاصد کے عکاس نہیں رہیں گے۔

Published: undefined

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک اور گوگل کے اعلانات پر بظاہر مسرت کا اظہار کیا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیوز عام کرنے کا یہ انداز زیادہ اختراعی نہیں ہو گا کیونکہ صارفین کو جبری انداز میں اشتہاروں کا تابع کر دیا جائے گا۔ پروفیسر کرسٹیان ماتھیاس ویلبراک کے مطابق اس ڈیل سے اسٹیٹس کو مورچہ بند ہو جائے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined