بھارتی حکومت نے رواں ماہ کے وسط میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ ملک میں 10 سے 17 برس کی عمر کے ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ بچے نشے کے عادی ہیں۔ یہ ملک میں منشیات کے استعمال کی حد اور نمونوں کے بارے میں پہلے جامع سروے ہے۔ 'نیشنل ڈرگ ڈیپینڈنس ٹریٹمنٹ سینٹر' نے منشیات مادے کے استعمال کے عوارض سے متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی آبادی کا پتہ کیا ہے۔
Published: undefined
یہ سروے سن 2017 اور 2018 کے درمیان کیا گیا تھا اور اسے سن 2019 میں عوام کے لیے جاری کیا گیا تھا اور اسی ماہ سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔ یہ سروے ملک کی تمام 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں این جی اوز کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
Published: undefined
قومی سروے کے مطابق بھارت میں الکحل لوگوں کے ذریعہ سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا مادہ ہے، اس کے بعد بھنگ اور افیون ہیں۔ جن ریاستوں میں بھنگ کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ان میں اتر پردیش، پنجاب، سکّم اور چھتیس گڑھ شامل ہیں۔
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا کہ '' تین کروڑ سے زائد افراد بھنگ کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں اور تقریباً ڈھائی کروڑ افراد بھنگ پر منحصر رہتے ہیں۔'' رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ''22.6 ملین لوگ افیون استعمال کرتے ہیں اور تقریباً پونے ایک کروڑ افراد کو افیون استعمال کرنے کے مسائل کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔''
Published: undefined
سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ افیون استعمال کرنے والے ملک کی آبادی کا تقریبا ً2.06 فیصد ہیں، اور یہ کہ 1.7 فیصد بچے اور نو عمر اور 0.58 فیصد بالغ افراد کش لگاتے یا پھر نشہ آور اشیا سونگھتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی ادویات پر انحصار کرنے والے افراد میں سے چار میں سے تین کا علاج بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں منشیات کے استعمال کے اعداد و شمار حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
Published: undefined
ان نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ منشیات پر قابو پانے کے سخت قوانین اور ملک بھر میں منشیات کی سپلائی پر کنٹرول کے لیے کام کرنے والی ایجنسیوں کی ایک بڑی تعداد کے باوجود، اب بھی ممنوعہ نشہ آور مادوں کی وسیع تر اقسام کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
وزارت صحت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ نشہ آور مادوں کی مانگ میں روایتی، کم طاقت اثر والے، پودوں پر مبنی افیون جیسی مصنوعات سے زیادہ موثر اور ہیروئن جیسے پروسیسڈ مصنوعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔''
Published: undefined
بہت سی ریاستوں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے پالیسیوں کا فقدان ہے۔ حکومت کے زیر انتظام اسکول عام طور پر منشیات کے استعمال کے بارے میں حساس نہیں ہیں اور وہاں اس سے متعلق آگاہی کے پروگرام منعقد نہیں کیے جاتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کی تنظیم 'بچپن بچاؤ آندولن' کے وکیل ایچ ایس پھولکا کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ قومی سروے کے نتائج سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اسی تنظیم نے بچوں میں منشیات کے استعمال کے خدشات پر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی۔
Published: undefined
پھولکا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''بڑی تعداد میں ایسے بچے ہیں جو متاثر ہیں اور جن کا اس سروے میں شمار نہیں کیا گیا ہے... وہ نشے کے عادی ہیں۔ اسکولوں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں منشیات کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے اور آخر کار وہ خود یہی مادہ بیچنے والے بن جاتے ہیں۔''
Published: undefined
شمالی ریاست پنجاب میں منشیات کے استعمال کی تشویشناک سطح دیکھی جا رہی ہے۔ پچھلے چھ مہینوں میں صوبے کے 'آؤٹ پیشنٹ اوپیئڈ اسسٹڈ ٹریٹمنٹ' کلینکس میں مریضوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ سے بڑھ کر آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
Published: undefined
چنڈی گڑھ کے ایک کونسلر ہرپریت سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ نشے میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ منشیات کی آسانی سے دستیابی بھی ہے اور اس کا نتیجہ براہ راست معاشرے، محلوں اور خاندانوں پر پڑتا ہے۔'' انہوں نے خبردار کیا ہے کہ افیون کا غلط استعمال کئی ریاستوں میں صحت عامہ کا ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
Published: undefined
ریاست پنجاب میں کی گئی ایک الگ تحقیق کے مطابق صوبے کے 75 فیصد سے زیادہ نوجوان منشیات کے استعمال سے نبرد آزما ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق جیل کے اندر کم از کم 30 فیصد قیدی وہ ہیں جنہیں منشیات سے متعلق قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے، سماجی انصاف اور با اختیار بنانے کی وزارت نے کئی دیگر سرکاری محکموں کے ساتھ مل کر منشیات کی طلب میں کمی کے لیے ایک قومی ایکشن پلان بھی تیار کیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز