سماج

مہاجرت سے کامیاب فوٹوگرافر بننے کا سفر

سن 2015 میں لاکھوں تارکینِ وطن جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔ اسی دور میں داخل ہونے والا ایک عراقی مہاجر اب جرمنی میں ایک کامیاب فوٹوگرافر بن چکا ہے۔

مہاجرت سے کامیاب فوٹوگرافر بننے کا سفر
مہاجرت سے کامیاب فوٹوگرافر بننے کا سفر 

عراق سے تعلق رکھنے والا تارک وطن رائیسان حمید پہلی نظر میں ایک خاموش طبع نوجوان دکھائی دیتا ہے۔ اس کی کامیابی کے پیچھے مشکلات اور ہمت کی ایک مکمل داستان پوشیدہ ہے۔ انہی مشکلات سے نکل کر حمید کو لائپزگ یونیورسٹی برائے گرافکس اور بُک آرٹ (HGB) میں سن 2016 میں داخلہ دیا گیا تھا۔ اس کی کھینچی گئی تصاویر کی نمائشوں کا سلسلہ لائپزگ کے علاوہ کئی اور شہروں تک پہنچ چکا ہے۔

Published: undefined

چار برس قبل یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ڈی ڈبلیو کے نمائندے نے اس سے ملاقات کی تھی۔ اُسی دن لائپزگ یونیورسٹی برائے گرافکس اور بُک آرٹ میں 'اکیڈمی برائے ٹرانس کلچرل ایکسچینج‘ کا بھی افتتاح ہوا تھا۔ اسی اکیڈمی میں اعلیٰ تعلیم کا ایک خصوصی دو سالہ کورس شروع کیا گیا تھا۔

Published: undefined

اس کورس کی افتتاحی تقریب میں زندگی کے سبھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے۔ اس دن کو یاد کر کے رائیسان حمید کا کہنا ہے کہ اُس دن وہ بہت نروس تھا کیونکہ ایک سال قبل ہی وہ جرمنی پہنچا تھا اور زبان سے شناسائی بھی معمولی سی تھی۔ حمید کے مطابق سبھی ان کو دیکھ رہے تھے کہ آیا یہ تعلیم کے میدان میں کامیاب ہو سکیں گے۔

Published: undefined

اکیڈمی میں داخلے کے وقت رائیسان حمید بیس اور تیس برس کے درمیان تھا اور سیدھی سادی زندگی سے نکل کر وہ ایک مشہور آرٹ اسکول پہنچ گیا تھا۔ اس کی مہاجرت کا سفر موصل سے شروع ہوا تھا، جب داعش (اسلامک اسٹیٹ) نے شہر پر قبضہ کیا تو اُسے اور اس کے خاندان کو جبراً شہر بدری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ داعش ویسے بھی جمالیاتی فنون کی شدید مخالف تھی۔ موصل سمیت تمام زیر قبضہ علاقوں جمالیاتی فن یا آرٹ جاننے والوں کو چُن چُن کر گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کے علاوہ کئی ایک کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جہادیوں کی آمد کے وقت وہ موصل میں فوٹوگرافی کے ساتھ ساتھ مختلف میڈیا اداروں کے لیے جزوقتی کیمرہ مین کی بھی ڈیوٹی دیتا تھا۔ موصل پر جہادی تنظیم کے قبضے کے بعد وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اُس کے ایک دوست کو پھانسی دے دی گئی اور وہ اپنا شہر جلتا ہوا چھوڑ کر کسی اور جانب روانہ ہو گیا۔

Published: undefined

رائیسان حمید اپنے خاندان کو چھوڑ کر ایک بھری ہوئی کشتی میں ترکی سے یونان کو روانہ ہو گیا۔ یورپی ملک یونان پہنچنے کے چند ہفتوں بعد وہ بلقان رُوٹ سے گزرتا ہوا شمالی جرمنی کے قصبے اوہشلاگ میں داخل ہو گیا۔ یہ قصبہ جرمن ریاست شلیسویگ ہولشٹائن میں واقع ہے۔ ابتدائی مشکلات کے بعد اوہشلاگ کی ایک خاتون نے اس کی مدد کرنا شروع کر دی اور جرمن زبان کی تعلیم بھی دینا شروع کر دی۔ حمید جرمن قصبے اوہشلاگ کی خاتون کا احترام ایک ماں کی طرح کرتا ہے۔

Published: undefined

اسی عورت کی مدد سے اس کی رجسٹریشن مکمل ہوئی۔ حمید کو اس نے بھی اعتماد دیا کہ اس عورت نے اس کی کہانی سنی اور یقین بھی کیا۔ اوہشلاگ میں لوگوں کے ساتھ روابط سے اس کو جرمن زبان جاننے اور سیکھنے میں ابتدائی مدد ملی اور لائپزگ پہنچنے پر اُس کی زبان کی ابتدائی سمجھ بوجھ سے دوستوں میں اضافہ ہوا۔

Published: undefined

اس دوران عراقی تارک وطن کو نسلی تعصب کا بھی سامنا کرنا پڑا اور پبلک ٹرانسپورٹ پر مقامی باشندوں کی گالیاں بھی سننا پڑیں۔ لائپزگ میں اکیڈمی میں داخلہ لینے پر پہلے اس نے دو سالہ زبان سہکھنے کا کورس مکمل کیا اور پھر آرٹ اکیڈمی میں بقیہ تعلیم کا سلسلہ جاری شروع کیا۔

Published: undefined

سن 2018 میں وہ فوٹوگرافی کا اسٹوڈنٹ بن چکا تھا۔ اس کی مہارت کا جلد ہی سب کا ادراک ہو گیا۔ اس کی بنائی ہوئی تصاویر کی نمائشیں لائپزگ کے علاوہ برلن اور راٹرڈیم کے ساتھ ساتھ خلیجی شہروں مسقط، دبئی اور شارجہ میں بھی ہو چکی ہیں۔ حمید کو بہت زیادہ خوشی بون شہر کے 'کُنسٹ ہالے‘ میں تصاویر کی نمائش سے ہوئی ہے۔ اس بڑے میوزیم میں اس کی فوٹوگرافس کو نصب ہونے سے اس کو فخر محسوس ہوا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined