عراق کی قدیم ترین سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی اب بھی فعال ہے۔ اس کی بنیاد سن 1934 میں رکھی گئی تھی۔ اس کے مرکزی نشانات میں ہتھوڑا اور درانتی شامل ہیں لیکن امن کا نشان فاختہ بھی ان میں شامل ہے۔ اس کے بنیادی ممبران کی تعداد آج کل محض چند ہزار ہے اور اس کا کوئی ایک بھی رکن ملکی پارلیمان کا حصہ نہیں ہے۔
Published: undefined
اس پارٹی نے یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا۔ اس نے گزشتہ برس کے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ اس لیے کیا تھا کہ اس کے بقول یہ الیکشن بدعنوان نسلی و مذہبی و فرقہ وارانہ عناصر کے درمیان اقتدار کو تقسیم کرنے کے مترادف تھا۔ پارٹی کے مطابق یہ بدعنوان حکومتی عمل سن 2003 میں شروع ہونے والی امریکی جنگ اور قبضے کا نتیجہ ہے۔
Published: undefined
مشرقِ وسطیٰ کے اس ملک میں صدام حسین کی آمریت اور امریکی فوج کشی، جنگ و قبضے کے بعد سے مضبوط حکومتی عمل کا فقدان ہے۔ انتخابات کا سلسلہ جاری ہے لیکن کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پا رہی اور مذہبی سیاسی جماعتیں ملکی سیاست پر چھائی ہوئی ہیں۔
Published: undefined
بڑی سیاسی جماعتیں شیعہ اور سنی عقائد کے حامل سیاستدانوں کے کنٹرول میں ہیں اور بقیہ چھوٹی سیاسی پارٹیاں نسلی و مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہیں۔ ان گروپوں اور اقلیتوں میں مسیحی اور ترکمان خاص طور پر نمایاں ہیں۔
Published: undefined
عراقی کمیونسٹ پارٹی ملکی سیاسی نظام کو مذہب سے آزاد کرانے کی وکالت کرتی ہے۔ ایسی سوچ کی عراق میں بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ مذہب اور سیاست کو علیحدہ کرنا فی الحال بہت ہی مشکل ہو چکا ہے۔
Published: undefined
مڈل ایسٹ انیشیئیٹو نامی تھنک ٹینک سے وابستہ سیاسی مبصرہ مارسین الشماری کا کہنا ہے کہ عراق میں مسجد یعنی مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی سوچ بہت کمزور ہے۔ اس وقت ملکی سیاسی قوت کا مرکز و محور اکثریتی شیعہ آبادی کے گرد قائم ہے اور اس میں ایک جانب شعلہ بیان شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر ہیں اور دوسری جانب ان کے حریف ایران نواز گروپ اطار التنسیق العراق (Coordination Framework) ہیں۔
Published: undefined
عراق کی ایک خاتون سرکاری ملازمہ زینب عزیز کا کہنا ہے کہ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کی وجہ سے خواتین کی زندگی مشکل تر ہو چکی ہے اور نوجوان شدید پریشان ہیں کیونکہ وہ آزادی کے متلاشی ہیں۔ ایسے حالات میں عراقی کمیونسٹ پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے جس نے واشگاف انداز میں خواتین کے حقوق کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
Published: undefined
سیاسی انتشار سے متاثرہ ملک عراق میں کمیونسٹ پاڑی بظاہر مرکزی سیاسی دھارے سے باہر دکھائی دیتی ہے اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے غلبے، عدم اتفاق اور معاشرتی تقسیم نے اس پارٹی کو کونے میں دھکیل رکھا ہے۔
Published: undefined
ماضی میں یہ ایک مقبول سیاسی پارٹی رہ چکی ہے۔ کینیڈا کی کیلگری یونیورسٹی سے وابستہ پولیٹیکل سائنٹسٹ طارق اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ پچھلی صدی میں سن انیس سو چالیس اور پچاس کی دہائیوں میں اس سیاسی جماعت نے سماجی انصاف کے لیے امپیریلزم مخالف سوچ اپنا کر حقوق سے محروم افراد کو ایک اجتماعی آواز دے دی تھی۔
Published: undefined
اس سیاسی جماعت کو سن انیس سو ستر کی دہائی میں ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں شدید حکومتی جبر کا سامنا رہا لیکن اس آمر کے زوال کے بعد اس پارٹی میں زندگی پھر سے بیدار ہو گئی تھی۔
Published: undefined
آج کل عراقی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اکہتر سالہ رائد فہمی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ملک میں رکنیت سازی شروع کرے گی اور سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے حق میں آواز بھی بلند کرتی رہے گی۔ کمیونسٹ پارٹی ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی حامی ہے اور وہ ان کی معاشی آزادی کی بھی حمایت کرتی ہے۔ رائد فہمی کے مطابق موجودہ حالات میں خواتین کا فعال کردار مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن اس سمت میں پیش رفت ضروری ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز