ایران جنوبی افریقہ کو ایک ممکنہ اسٹریٹیجک پارٹنر سمجھتا ہے اور اس سے قریبی تعلقات کا خواہاں ہے۔ اس پس منظر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اپنے دورے کے دوران جنوبی افریقی رہنماوں کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ کینیا، یوگینڈا اور زمبابوے کا دورہ کرچکے ہیں۔
Published: undefined
سن 2021 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے صدر رئیسی ایران کی خارجہ پالیسی کی اپروچ کو مضبوط بنانے کے لیے دانستہ حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں۔ رئیسی نے جولائی میں کینیا، یوگینڈا اور زمبابوے کا دورہ کیا تھا، جن پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں کسی ایرانی رہنما کا افریقی براعظم کا یہ پہلا دورہ تھا۔
Published: undefined
کینیا میں انہوں نے افریقہ کو "مواقع کا براعظم" قرار دیتے ہوئے ایرانی مصنوعات کے لیے ممکنہ مارکیٹ کے طور پر اس کی صلاحیتوں پر زور دیا تھا۔ رئیسی کا کہنا تھا، "ہم میں سے کوئی بھی تجارت کے موجودہ حجم اور ملکوں کے درمیان موجودہ اقتصادی تبادلے سے مطمئن نہیں ہے۔" ابراہیم رئیسی کا پریٹوریا کا سرکاری دورہ جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ نالیدی پانڈور کے تہران کے دورے کے ایک ہفتے بعد ہوا ہے۔
Published: undefined
ایرانی صدر رواں سال اگست میں برکس سربراہی اجلاس سے قبل جنوبی افریقہ ایران مشترکہ تعاون کمیشن (جے سی سی) کی میٹنگ میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ میں تھے۔ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس جنوری 2024 میں ایران سمیت دیگر پانچ ملکوں کو خوش آمدید کرنے والا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کارنامے کے پیچھے اصل ہاتھ جنوبی افریقہ کا ہے۔
Published: undefined
دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات نسل پرستی کے دورسے ہیں، جب ایران نے جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی تھی۔ ایران سن 1994میں سیاہ فام اکثریت والی حکومت کے قیام کے بعد جنوبی افریقہ کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا۔
Published: undefined
سن 1995میں جے سی سی کا قیام عمل میں آیا تھا، جس کے تحت دونوں ممالک نے تقریباً تمام اہم شعبوں میں کئی باہمی معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ اگست میں پریٹوریا میں جے سی سی کی میٹنگ کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران نے دونوں ملکوں کے باہمی فائدے کے لیے جنوبی افریقہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔
Published: undefined
امیر حسین عبداللہیان کا کہنا تھا، "اسلامی جمہوریہ ایران جنوبی افریقہ کے ساتھ سائنسی تعاون، نئی ٹیکنالوجی میں ترقی، نئی ٹیکنالوجی کے تبادلے، نیز ثقافت، سیاحت، معیشت، تجارت اور توانائی جیسے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں کسی پابندی کے بغیر دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔" تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2022 میں افریقہ کو ایرانی برامدات 1.28 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ سن 2020 میں 579 ملین ڈالر کے قریب تھی۔
Published: undefined
ایران کی وزارت خارجہ کے مطابق، 2023 میں، افریقی ممالک کے ساتھ ایران کی تجارت 2 بلین ڈالر سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ اسلامی مرکز برائے افریقہ کے ڈائریکٹر سید حسینی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران بقیہ افریقی براعظم کے ساتھ تجارت میں اضافے پر بھی غور کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ نے دیگر برکس ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایران کی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
Published: undefined
حسینی نے کہا کہ ''ایران مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں ایک بہت ہی اسٹریٹیجک مقام پر واقع ہے۔ اس علاقے میں ایران بھارت، روس کو شمال-جنوب کوریڈور کے ذریعے منسلک کرنے میں سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ اور پھر یہ چین کو خلیج فارس سے جوڑ سکتا ہے اور خلیج فارس سے یہ جنوبی افریقہ سے جڑ سکتا ہے اور باقی دنیا کو جوڑ سکتا ہے۔'' کئی تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران اب بھی امریکی پابندیوں کی فہرست میں ہے اور جنوبی افریقہ کے ساتھ اس کی قربت نے امریکہ کو حیران کر دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined