ایران کے صدر ابراہیم رئیسی منگل کے روز اپنے ایک بڑے وفد کے ہمراہ چین کے تین روزہ دورے پر بیجنگ پہنچے، جس کا بنیادی مقصد اقتصادی، توانائی اور دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ رئیسی کا پہلا سرکاری دورہ ہونے کے ساتھ ہی 20 سالوں میں کسی بھی ایرانی صدر کا پہلا دورہ چین ہے۔
Published: undefined
اس سے قبل رئیسی اور چینی صدر شی جن پنگ کی پہلی ملاقات گزشتہ ستمبر میں ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ چین اس تنظیم کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لیے ایران کی حمایت کرتا ہے۔
Published: undefined
ایرانی صدر نے اگست 2021 میں عہدہ سنبھالا تھا، جن کے ساتھ بیجنگ کے دورے میں ایک بڑی ٹیم موجودہے۔ اس میں مرکزی بینک کے نئے گورنر سمیت اعلیٰ جوہری مذاکرات کار بھی شامل ہیں، جو دورے کی ترجیحات کی طرف ایک اہم اشارہ ہے۔ رئیسی کے وفد میں ان کی کابینہ کے وزیر خزانہ، پٹرولیم، خارجہ امور، تجارت، ٹرانسپورٹ اور شہری ترقی اور زراعت کے وزراء بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پہلے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کریں گے اور اس کے بعد وفود کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔ بات چیت کے نتیجے میں دونوں رہنماؤں کی موجودگی میں کئی معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
Published: undefined
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے ایک بیان میں کہا کہ صدر رئیسی چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ اور ایک اعلیٰ چینی قانون ساز لی ژانشو سے بھی ملاقات کریں گے۔
Published: undefined
وانگ نے کہا کہ ''چین اور ایران روایتی دوستی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور چین ایران تعلقات کو مضبوط اور ترقی دینے کے لیے یہ دونوں ممالک کی جانب سے ایک اسٹریٹیجک انتخاب ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ بیجنگ ''مشرق وسطی کے ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون کو بڑھانے اور علاقائی سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔''
Published: undefined
دورے کے آغاز سے قبل اتوار کے روز رئیسی کے سیاسی امور کے نائب محمد جمشیدی نے سرکاری ٹیلیویژن کو بتایا تھا کہ اس دورے کا بنیادی مقصد اس 25 سالہ جامع اسٹریٹیجک تعاون کے معاہدے کے ''آپریشنل میکانزم کو حتمی شکل دینا'' ہے، جس پر دونوں ممالک نے سن 2021 میں دستخط کیے تھے۔
Published: undefined
جوہری معاہدے سے متعلق ایران کے اہم مذاکرات کار علی باقری کنی بھی اس وفد میں شامل ہیں جو اس بات کا غماز ہے کہ ایران جوہری معاہدے سے متعلق بھی چین سے علیحدہ بات چیت چاہتا ہے۔ چین بھی ان ممالک سے ایک ہے، جس نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
Published: undefined
اطلاعات کے مطابق چین نے رئیسی کی صدارت کے پہلے برس کے دوران ایرانی معیشت میں صرف 162 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جو افغانستان اور ترکی سے بھی کم ہے۔ تاہم چین اب بھی ایران کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود چین کی جانب سے ایرانی تیل خریدنے کا عمل جاری ہے۔
Published: undefined
روس کے ساتھ چین نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے طاقتور برکس گروپ میں شامل ہونے کے لیے ایران کی کوشش کی حمایت کرتا ہے۔ حال ہی میں چینی صدر نے خلیجی ممالک کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے اس مشترکہ بیان پر بھی دستخط کیے تھے جس میں آبنائے ہرمز کے پاس تین جزائر پر ایرانی ملکیت پر سوالات اٹھانے کے ساتھ ہی اس کے جوہری پروگرام پر بھی سوال اٹھایا گیا تھا۔
Published: undefined
اس پر ایران نے بطور احتجاج تہران میں بیجنگ کے سفیر کو طلب کیا تھا اور عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ چین نے خطے کے عرب ممالک سے بھی اپنے تعلقات بھی بہتر کیے ہیں اور اس نئے تناظر میں ایرانی صدر کا دورہ بیجنگ ہو رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز