فرانسیسی ہفت روزہ جریدے چارلی ایبدو نے بدھ کے روز ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے درجنوں کارٹون شائع کر دیے۔ ایران نے تہران میں فرانسیسی سفیر کو طلب کرکے اس پر سخت اعتراض کیا اور فرانس کو ان مبینہ طور پر اہانت آمیز کارٹونوں کی اشاعت کے نتائج سے خبردار کیا۔
Published: undefined
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ایک ٹویٹ میں کہا، ''مذہبی اور سیاسی اتھارٹی کے خلاف ایک فرانسیسی میگزین کی توہین آمیز اور ناشائستہ حرکت کو موثر اور فیصلہ کن ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔"
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا ''ہم فرانسیسی حکومت کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے یقینا ایک غلط راستے کا انتخاب کیا ہے۔"
Published: undefined
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا کہ فرانس کو آزادی اظہار کے بہانے دوسرے مسلم ممالک اور اقوام کی مقدس چیزوں کی توہین کا کوئی حق نہیں ہے۔ بدھ کو ایران کی وزارت خارجہ نے فرانسیسی سفیر نکولس روشے کو طلب کیا اور فرانسیسی میگزین کی حرکت پر سخت اعتراض درج کرایا۔ کنعانی نے مزید کہا کہ ''ایران فرانسیسی میگزین کے ناقابل قبول رویے کے حوالے سے فرانسیسی حکومت کی وضاحت اور جوابی اقدام کا انتظار کر رہا ہے۔''
Published: undefined
ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران چارلی ایبدو کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرانس کے متعلقہ حکام سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس میگزین کے ان اقدامات سے نمٹنے کے لیے ضروری اور فوری اقدام کریں گے تاکہ توہین اور نفرت کی اس مہم کو جاری رکھنے سے روکا جا سکے کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر نقصان دہ اور تباہ کن اثرات مرتب کریں گے۔
Published: undefined
چارلی ایبدو نے ایران میں جاری حالیہ مظاہروں کی حمایت میں خامنہ ای کے کارٹون کے ایک مقابلے کا اعلان کیا تھا۔ لباس کے مقررہ ضابطوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ایک 22 سالہ ایرانی خاتون کی ایرانی اخلاقی پولیس کی حراست میں 16ستمبر کو موت ہوگئی تھی، جس کے بعد سے ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
Published: undefined
چارلی ایبدو نے 30 سے زائد کارٹون شائع کیے ہیں جو شرکاء کی جانب سے موصول ہونے والے 300 سے زائد کارٹونز میں سے منتخب کیے گئے ہیں۔ ان کارٹونز میں ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کو مختلف پوز میں دکھایا گیا۔ انہیں مہلک ہتھیار اور دیگر چیزیں پکڑے دکھایا گیا۔ بعض کارٹونز میں وہ مظاہرین کی طرف سے مار پیٹ اور گھونسے مارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، سب سے اہم آئیڈیا جس پر مصوروں نے کام کیا وہ تھا خامنہ ای کو احتجاج کرنے والی خواتین کے بالوں سے لٹکایا گیا تھا۔
Published: undefined
چارلی ایبدو کے ڈائریکٹر لارینٹ سوریسیو نے ایک اداریے میں لکھا، ''یہ ان ایرانی مردوں اور عورتوں کے لیے ہماری حمایت ظاہر کرنے کا ایک طریقہ ہے جو 1979 سے ان پر ظلم ڈھانے والی مذہبی حکومت کے خلاف اپنی آزادی کے دفاع کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔''
Published: undefined
طنزیہ میگزین چارلی ایبدو میں کارٹونوں کی اشاعت کو اس کے حامی اظہار رائے کی آزادی کا علمبردار جب کہ اس کے ناقدین اسے غیر ضروری اشتعال انگیزی قرار دیتے ہیں۔ گوکہ چارلی ایبدو کا انداز خود فرانس میں بھی متنازع ہے تاہم سن 2015 میں جب پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد میگزین کے دفتر پر مسلح حملہ ہوا تو پورا ملک اس کے حق میں متحد ہوگیا تھا۔
Published: undefined
فرانسیسی رکن پارلیمان اور صدر ایمانوئل ماکروں کے وفادار سابق وزیر نتھالی لوئیساؤ نے ایران کے ردعمل کو چارلی ایبدو کے لیے ''مداخلت کی کوشش اور خطرہ'' قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ "یہ بالکل واضح ہو جانا چاہئے کہ تہران کی جابرانہ اور مذہبی حکومت کے پاس فرانس کو سکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔''
Published: undefined
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اسلامی، مذہبی اور قومی مقدسات اور اقدار کی توہین کو کسی بھی صورت قبول نہیں کرتا اور فرانس کو آزادی اظہار کے بہانے سے دوسرے مسلم ممالک اور اقوام کے مقدسات کی توہین کا جواز فراہم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
Published: undefined
ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پیغمبر اسلام، قرآن کریم اور دین اسلام پر حملہ کرنے سے متعلق اس فرانسیسی میگزین کے 'سیاہ کارناموں' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، فرانس کی حکومت کو اس نفرت انگیز، توہین آمیز اور بلا جواز اقدام کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز