ایران، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ کے درمیان سن 2015 میں مشترکہ جامع ایکشن پلان منصوبہ (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف ایران جوہری معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے میں ایران کے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے عوض اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی دی گئی تھی۔ لیکن سن 2018 میں واشنگٹن نے خود کو اس سے یک طرفہ طور پر الگ کرلیا جس کے بعد ایران نے بھی اپنی جوہری سرگرمیاں کافی تیز کردیں۔
Published: undefined
جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے ویانا میں بات چیت ہو رہی تھی، جو پیر کے روز مکمل ہو گئی۔ اس آخری دور میں چار روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد یورپی یونین نے ایک ’حتمی مسودہ‘ پیش کیا۔ جس کے بعد ایران اور دیگر ملکوں کے سفارت کار اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے، جہا ں وہ اس پر مزید غور و خوض کریں گے۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایران کے اعلیٰ جوہری مذاکرات کار علی باقری کنی صلاح و مشورے کے لیے تہران لوٹ آئے ہیں۔
Published: undefined
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے کہا کہ "جو بات چیت ہم کرسکتے تھے، اسے کرنے کے بعد ہم نے حتمی مسودہ پیش کر دیا ہے۔"
Published: undefined
روسی سفیر میخائل الیانوف کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی طرف سے پیش کردہ مسودے میں تہران کو اس کے جوہری پروگراموں کو محدود کرنے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کی بات کہی گئی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اب مذاکرات کے فریقین کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ مسودہ انہیں قابل قبول ہے یا نہیں۔ "اگر اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا تو جوہری معاہدہ بحال ہوجائے گا۔"
Published: undefined
تاہم ایرانی وزارت خارجہ کے عہدیدار کے حوالے سے ایرانی خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ تہران فی الحال اس مرحلے میں نہیں ہے کہ وہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے کچھ کہہ سکے۔ ایرانی عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران "تہران میں مزید غور و خوض اور صلاح و مشورے کے بعد اپنے اضافی خیالات اور تحفظات سے آگاہ کرے گا۔"
Published: undefined
جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے غیر رسمی بات چیت کا سلسلہ کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد گزشتہ ہفتے ویانا میں شروع ہوا تھا۔ بات چیت کی ابتدا اپریل 2021 میں ہوئی تھی تاہم رواں برس مارچ میں یہ تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔
Published: undefined
ایک اہم متنازع نقطہ ایران کے خلاف عائد ان تمام پابندیوں کو ہٹانے کے حوالے سے تھا جو سن 2018 میں جوہری معاہدے سے واشنگٹن کے یک طرفہ طورپر الگ ہوجانے کے بعد امریکہ نے تہران پر دوبارہ نافذ کردی تھیں۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ مذاکرات میں تعطل کی ایک وجہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی جانب سے تفتیش کے حوالے سے بھی تھی۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کی اس جوہری ایجنسی نے پہلے سے غیر اعلانیہ تین مقامات پر افزودہ یورینیم کے نشانات کی دریافت کی مناسب وضاحت کرنے میں ناکام رہنے پر گزشتہ جون میں ایران کی سرزنش کی تھی۔
Published: undefined
ایران نے مطالبہ کیا کہ آئی اے ای اے کو ان سوالات سے متعلق امور کو پہلے مکمل طورپر حل کرنا چاہئے۔ تہران کا دیرینہ موقف ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنا نہیں چاہتا اور اس کی جوہری سرگرمیاں صرف پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز