امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے منگل کے روز کہا کہ ایران تقریباً 12 دنوں میں ایک جوہری بم کے لیے ضروری انشقاقی مادہ (Fissile Material) تیار کر سکتا ہے، جو کہ سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے نفاذ کے دوران ممکنہ اندازے کے مطابق ایک سال کی مدت سے کم ہے۔
Published: undefined
دفاعی پالیسی کے نائب وزیر کولن کاہل نے یہ بات ایوان نمائندگان کی ایک سماعت کے دوران اس وقت بتائی جب ایک ریپبلیکن قانون ساز نے یہ سوال کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے)، جو ایران جوہری معاہدہ کے نام سے معروف ہے، کو بحال کرنے کی کوشش کیوں کی۔
Published: undefined
امریکی محکمہ دفاع میں تیسری پوزیشن کے حامل کاہل کا کہنا تھا، "کیونکہ ہمارے جے سی پی او اے کے چھوڑنے کے بعد سے ایران کی جوہری پیش رفت قابل ذکر رہی ہے۔ سن 2018 میں جب سابقہ انتظامیہ نے جے سی پی او اے سے خود کو الگ کرلینے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت ایران کو ایک بم کی تیاری کے لیے ضروری انشقاقی مادہ تیار کرنے میں تقریباً 12ماہ لگتے تھے۔ لیکن اب اس میں تقریباً 12دن لگیں گے۔"
Published: undefined
کاہل نے مزید کہا،"اور اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کو سفارتی طورپر حل کرسکتے ہیں اور ان (ایران) کے جوہری پروگرام میں رکاوٹیں ڈال سکتے ہیں۔ اور یہ کسی دوسرے متبادل سے بہتر ہے۔ لیکن اس وقت تو جے سی پی او اے پر برف پڑی ہوئی ہے۔"
Published: undefined
امریکی حکام بارہا یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اگر ایران نے جوہری بم بنانے کا فیصلہ کرلیا تو اس میں کتنا وقت لگے گا۔ ان کا خیال تھا کہ اس میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔ لیکن کاہل نے پہلی مرتبہ اس میں لگنے والے وقت کا واضح طور پر ذکر کیا ہے۔
Published: undefined
امریکی حکام کا خیال ہے کہ ایران انشقاقی مادہ تیار کرنے کے قریب تر ہوگیا ہے لیکن انہیں یقین نہیں کہ اس نے جوہری بم بنانے کی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلی ہے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کو یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔ جس کے بعد تہران نے اپنے جوہری پروگرام پر دوبارہ کام شروع کر دیا۔
Published: undefined
امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری بم تیار کرسکتا ہے۔ تاہم ایران اس طرح کے کسی عزائم سے انکار کرتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ پچھلے دو برسوں سے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
Published: undefined
جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی ا ے ای اے) نے منگل کے روز کہا کہ اس کے معائنہ کاروں نے ایران کے فردو جوہری پلانٹ میں یورینیم کے ذرات 83.7 فیصد افزودہ پائے ہیں۔
Published: undefined
عالمی جوہری توانائی ایجنسی نے کہا کہ ان ذرات کے ماخذ کا پتہ لگانے کے سلسلے میں بات چیت ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس موجود یہ یورینیم افزودگی 2015 کے معاہدے میں طے شدہ ہدف سے 18 فیصد زیادہ ہے۔ دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے یورینیم افزودگی کے دوران ایسا غیر ارادی طور پر ہو گیا ہو۔
Published: undefined
ایران کی طرف سے کوئی بھی وضاحت، بہر حال اس کے علاقائی حریف اسرائیل کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ حال ہی میں اسرائیل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پہلے ہی تہران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں۔
Published: undefined
دریں اثناء منگل کے روز جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک اوراسرائیل دونوں ایران پر84 فی صد افزودہ یورینیم کے الزامات پر فکرمند ہیں۔
Published: undefined
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ "ہم ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں میں اضافے اور یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے حالیہ خبروں پرتشویش میں متحد ہیں۔ ''اتنی اعلیٰ سطح کی افزودگی کا کوئی قابل قبول سویلین جواز نہیں ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined