پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عنبر عباس برطانیہ میں نیو کاسل یونیورسٹی سے با حیثیت ریسرچ سکالر وابستہ ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ مشترکہ تحقیق میں چائے کی استعمال شدہ پتی کے 'پھوک‘ سے گریفین کوانٹم ڈاٹس تیار کیے ہیں، جنہیں پانی کے علاوہ انسانی جسم میں آئرن کی موجودگی کی شناخت کے لیے بطور سینسر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر عنبر عباس نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گریفین کو دنیا بھر میں طب خصوصاﹰ دوا سازی میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کی ٹیم کم خرچ اور ماحول دوست طریقے سے کوانٹم ڈاٹس بنانے کی خواہاں تھی جس کے لیے استعمال شدہ چائے کی پتی کا پھوک بہترین انتخاب تھا۔ چائے کی استعمال شدہ پتی کو یونہی پھینک دیا جاتا ہے حالانکہ یہ ری سائیکل کی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر عباس مزید بتاتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے سائنسدانوں کی ٹیم نے سیاہ چائے کی پتی کو تقریبا 50 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کیا۔ اگلے مرحلے میں اسے بلند درجہ حرارت میں 200 سے 250 سینٹی گریڈ ڈگری تک گرم کر کے اس میں آکسون کیمیکل شامل کیا گیا، جس سے گریفین بہت چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ انتہائی چھوٹے جسامت کے ان ذرات کی خصوصیت یہ تھی کہ ان میں بینڈ گیپ بن جانے کے باعث اب ان سے روشنی خارج ہو رہی تھی۔
Published: undefined
ڈاکٹر عنبر عباس نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان نو تیار شدہ کوانٹم ڈاٹس کو آزمانے کے لیے سترہ مختلف بھاری دھاتوں کے آئنز کو پانی میں گھول کر تجربات کیے گئے۔ جن سے یہ امر سامنے آیا کہ آئرن یا لوہے کی موجودگی میں یہ تیز نیلی روشنی کا اخراج کرتے ہیں۔ لہذا انہیں مختلف طرح کے حیاتیاتی اور ماحولیاتی نظاموں میں لوہے کی ذرات کی نشاندہی کے لیے بطور سینسر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر عنبر عباس کے بقول دنیا بھر میں اعصابی امراض خصوصا الزائمر اور ڈیمینشیا کی بڑھتی ہوئی شرح ایک تشویشناک امر ہے۔ سائنسدان کافی عرصے سے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عباس نے ماضی قریب کی تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر باربرا مہر کا حوالہ دیا، جو لانکیسٹر یونیورسٹی مانچسٹر میں پروفیسر ہیں۔ دو برس قبل انہوں نے فضا سے ہوا کے کچھ سیمپلز لے کر ان کا لیبارٹری تجزیہ کیا تھا تو حیران کن طور پر آزاد فضا میں ہزاروں کی تعداد میں خوردبینی ذرات کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ ان ذرات میں زیادہ مقدار آئرن کی تھی۔
Published: undefined
ڈاکٹر باربرا مہر کی تحقیق سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ فضا میں بڑھتی ہوئی آئرن، ایلومینیم اور ٹی ٹینیئم کے ذرات کی مقدار انسانی دماغ کے خلیات کو متاثر کر کے متعدد اعصابی امراض کا سبب بن رہی ہے، جس میں پارکنسن اور الزائمر سر فہرست ہیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر عنبر عباس کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ ان کی مشترکہ تحقیق کا مثبت پہلو یہ کہ اس طرح الزائمر کے مریضوں کے جسم میں آئرن کی شناخت نا صرف با آسانی ممکن ہو گی بلکہ یہ ایک سستا اور ماحول دوست طریقہ ہے۔ یہ گریفین کوانٹم ڈاٹس تیار کرنے کے لیے اس سے پہلے تیزاب کا استعمال کیا جاتا تھا، جس پر لاگت بھی زیادہ آتی تھی اور مضر اثرات الگ تھے۔
Published: undefined
ڈاکٹر عنبر عباس نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تیار کردہ گریفین کوانٹم ڈاٹس کو پانی میں آئرن اور دیگر بھاری دھاتوں کی شناخت کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں صنعتی فضلہ آبی ذخائر میں شامل ہونے کی وجہ سے لوہے، نکل، کرومیم وغیرہ جیسی دھاتوں کے ذرات کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے، جو کینسر، جگر، گردے اور جلدی امراض کا سبب بن رہے ہیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر عباس کے مطابق یہ ضروری ہے کہ مقامی سطح پر صاف پانی کے ذخائر میں بھاری دھاتوں کی مقدار معلوم کر کے ان کی صفائی کا انتظام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے یہ گریفین کوانٹم ڈاٹس آئیڈیل ہیں کیونکہ یہ سستے اور ماحول دوست طریقے سے تیار کیے گئے ہیں جس کے لیے خام مال یعنی چائے کی پتی کا پھوک ہر جگہ با آسانی دستیاب ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined