ہریانہ کے نوح اور اطراف میں فرقہ وارانہ فسادات کے حالیہ واقعات کے درمیان حصار ضلعے میں بھارتیہ کسان مزدور یونین کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں مختلف مذاہب، کسانوں کی تنظیموں اور کھاپ پنچایتوں کی ایک ''مہاپنچایت‘‘ منعقد ہوئی، جس میں ہندو، مسلمان اور سکھو ں کے رہنماؤں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ میٹنگ میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو، مسلمان اور سکھ سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے میوات خطے میں امن کو بحال کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔
Published: undefined
بیان میں کہا گیا ہے، "حکومت پورے واقعے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائے اور قصورواروں کو گرفتار کرے۔ ایسے لوگوں کے خلاف فوراً کارروائی کی جائے، جنہوں نے سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تقاریر اور ویڈیوز پوسٹ کیں، جن سے فسادات کو ہوا ملی۔"
Published: undefined
مہاپنچایت کے منتظمین میں سے ایک سریش کوتھ کا کہنا تھا کہ ہریانہ کی مٹی کو ذات اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے بعض اضلاع کے پنچایتوں کے سربراہوں کی جانب سے اپنے اپنے گاؤں میں مسلم تاجروں کا بائیکاٹ کرنے کے لیے خط لکھنے کی مذمت بھی کی۔
Published: undefined
خیال رہے کہ ہندو شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد کی جانب سے نوح میں 31 جولائی کو ایک مذہبی جلوس نکالنے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے تھے، جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ فسادات کا سلسلہ نوح کے علاوہ دیگر علاقوں بشمول گروگرام تک پھیل گیا، جو بھارت کا تیسرا بڑا آئی ٹی مرکز ہے اور جہاں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔
Published: undefined
مہاپنچایت نے امن اور بھائی چارہ بحال کرنے کے لیے آنے والے دنوں میں نوح جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ مقامی انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ سروکھاپ پنچایت کے قومی ترجمان صوبے سنگھ سمین نے بتایا، "جیسے ہی ہمیں اجازت ملے گی ہم دونوں فرقوں کے لوگوں سے بات کرنے کے لیے وہاں جائیں گے اور ویسا ہی بھائی چارہ اور امن بحال کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ وہ برسوں سے قائم تھا۔"
Published: undefined
صوبے سنگھ نے مزید کہا، "ریاست کے تمام گاؤں میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جانی چاہیے۔ چونکہ اگلے سال اسمبلی اور قومی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں اس بات کا خدشہ ہے کہ مذہبی بنیاد پر ووٹروں کی صف بندی کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے خاطر بڑے پیمانے پر سازش کی جا سکتی ہے۔"
Published: undefined
مہاپنچایت نے بجرنگ دل کے کارکن مونو منیسر اور بٹو بجرنگی کو گرفتار کرنے کا بھی مطالبہ دہرایا۔ انہوں نے مبینہ طور پر ایک اشتعال انگیز ویڈیو جاری کی تھی۔ مونو نے مبینہ ویڈیو میں کہا تھا کہ وہ خود بھی جلوس میں شامل ہو گا، حالانکہ بعد میں اس نے ایک بیان میں کہا کہ بعض ہندو رہنماؤں کے مشورے پر اس نے جلوس میں شرکت کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔لیکن بٹو بجرنگی مذہبی جلوس میں شامل تھا۔
Published: undefined
مونومنیسر پر گائے کی حفاظت کے نام پر متعدد مسلمانوں کو قتل کرنے کے الزامات بھی ہیں۔ وہ مفرور ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ریاست کی بی جے پی حکومت کی شہ پر اسے پولیس کی حفاظت حاصل ہے۔ اس دوران ہریانہ پولیس کے سربراہ پی کے اگروال نے کہا کہ فسادات میں مونو منیسر کے ملوث ہونے کے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم قائم کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined