نوالی گاؤں میں جسم فروشی ایک موروثی پیشہ ہے جو عورتوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا ہے۔ شاہی درباریوں کی اولاد خیال کیے جانے والے بنچاڈا قبیلے کی برادریاں اس خطے کے بیس دیہات میں مقیم ہیں۔ اس قبیلے کے بیس ہزار سے زائد افراد میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔
Published: undefined
نوالی بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے تقریباﹰ 370 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نیشنل ہائے وے کے ذریعے نوالی تک پہنچنے میں لگ بھگ آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔ اس خطے میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم کی سہولیات بھی انتہائی ناقص ہیں۔ یہاں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور زیادہ تر مرد زراعت کے شعبے میں عارضی معاہدوں پر مزدوری کرتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بعض چیزیں بدل رہی ہیں۔ نوالی گاؤں کی نو عمر لڑکیوں نے جسم فروشی کے کاروبار سے انکار کر دیا اور وہ اب ڈیجیٹل اسکلز کی تربیت حاصل کر ہی ہیں۔ نوالی کی اٹھارہ سالہ رہائشی رضیہ بھجدا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب یہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول جارہی ہیں اور اسی وجہ سے یہ تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ رضیہ کے بقول، ’’اب ہمیں ملازمتوں کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
بھارت کے نیشنل ای - گورننس پلان کے تحت دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل سہولیات متعارف کرانے کے سلسلے میں گزشتہ برس کامن سروس سینٹر (سی ایس سی) نامی تنظیم نے یہاں کی خواتین اور لڑکیوں کو موبائل فون کی اییپس بنانے، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا کی پیشہ ورانہ تربیت دینے میں مدد فراہم کی تھی۔ تاہم شروعات میں گاؤں کے باشندوں کو اس تبدیلی کے لیے راضی کرنا ایک مشکل عمل تھا۔
Published: undefined
سی ایس سی کے چیف آپریٹنگ آفیسر دنیش تیاگی کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں روایتی ملازمت یا کاروبار کو تبدیل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان کے بقول، ’’آپ کو لوگوں کے روایتی طرز عمل اور ذہنیت تبدیلی کرکے ان کے درمیان اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
سی ایس سی کی ڈیجیٹل مہم نے اس پسماندہ علاقے کی نوجوان لڑکیوں کو موروثی جسم فروشی کے ماضی سے جان چھڑا کر اپنے بہتر مستقبل کے لیے ایک صحیح سمت کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ نوالی کی ٹین ایجر لڑکی رانو بھیراگی نے بتایا، ’’اس گاؤں پر لگے بدنما داغ کی وجہ سے کوئی بھی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے میں نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ لیکن میں اب دوبارہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
Published: undefined
امید کی جارہی ہے کہ یہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ڈیجیٹل ہنر کے ساتھ اپنے علاقوں میں جسم فروشی کے کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنے میں مدد کریں گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز