سماج

بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت افتتاح سے پہلے ہی متنازعہ

وزیر اعظم مودی اٹھائیس مئی کو بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح کریں گے لیکن یہ عمارت اس سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہو گئی ہے۔ کانگریس سمیت بیس جماعتوں نے تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت افتتاح سے پہلے ہی متنازعہ
بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت افتتاح سے پہلے ہی متنازعہ 

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے این ڈی اے نامی اتحاد نے ملکی اپوزیشن کے اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیا ہے جس میں حزب اختلاف چاہتا ہے کہ صدر جمہوریہ نئی بلڈنگ کا افتتاح کریں۔ بی جے پی نے کہا ہے کہ ملکی پارلیمان کی نئی عمارت کے افتتاح کی تقریب میں شرکت نہ کرنا ''ہمارے عظیم ملک کی جمہوری اخلاقیات اور آئینی قدروں کے منافی ہے۔‘‘

Published: undefined

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ آئین کی رو سے بھارتی صدر نہ صرف تینوں مسلح افواج کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ وہ پارلیمان کے ان تین پہلوؤں میں سے بھی ایک ہوتا ہے، جو لوک سبھا، راجیہ سبھا اور صدر کہلاتے ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کے مطابق اس عمارت کا افتتاح بھی ملکی صدر کے ہاتھوں ہی ہونا چاہیے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے اس تقریب کے لیے ملکی صدر کو تو مدعو ہی نہیں کیا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی محض اپنی شہرت کے لیے اس تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں۔

Published: undefined

بھارتی اپوزیشن جماعتوں کو اس عمارت کے افتتاح کی تاریخ پر بھی اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا افتتاح یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کے موقع پر کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن بی جے پی حکومت نے 28 مئی کی تاریخ اس لیے منتخب کی کیونکہ یہ سن ہندوتوا کے علم بردار دامودر ونائک ساورکر کا جنم دن ہے۔ بی جے پی اس دن ساورکر کی 140ویں سالگرہ بھی منائے گی۔

Published: undefined

’یہ عہدہ صدارت کی توہین ہے‘

اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے، ''صدر دروپدی مرمو کو ایک طرف کر کے، پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح خود کرنے کا وزیر اعظم مودی کا فیصلہ نہ صرف صدر کے عہدے کی سخت توہین بلکہ ہماری جمہوریت پر براہ راست حملہ بھی ہے۔ اس توہین آمیز حرکت سے نہ صرف عہدہ صدارت کی بے عزتی ہوئی ہے بلکہ یہ آئین کی روح کے بھی خلاف ہے۔‘‘

Published: undefined

اس بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ صدر مرمو کو اس لیے مدعو نہیں کیا گیا کہ ان کا تعلق ایک پسماندہ قبیلے سے ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ''وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا غیر جمہوری طرز عمل کوئی نئی بات نہیں۔ وہ بھارتی عوام کے مسائل کو پارلیمان میں اٹھانے والوں کو نااہل اور معطل کرواتے رہے ہیں ... اور جب پارلیمان سے جمہوریت کی روح ہی نکال لی گئی ہو، تو نئی عمارت کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔‘‘

Published: undefined

وزیر اعظم مودی کا جواب

بھارتی وزیر اعظم مودی نے تین ملکوں، جاپان، پاپوا نیوگنی اور آسٹریلیا کے دورے سے واپسی پر جمعرات کے روز اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران اپوزیشن کے حملوں کا بالواسطہ جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ سڈنی میں ان کی استقبالیہ تقریب میں 20 ہزار سے زائد افراد موجود تھے۔ اس میں موجودہ وزیر اعظم کے علاوہ سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن پارٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

Published: undefined

قبل ازیں بی جے پی کے مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ''میں اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے۔ بائیکاٹ اور بلاوجہ مسئلے کھڑا کرنا افسوس کی بات ہے۔‘‘ انہوں نے اپوزیشن سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی اور تاریخی تقریب میں شرکت کرنے کی بھی اپیل کی۔

Published: undefined

پارلیمان کی نئی عمارت واقعی ضروری تھی؟

بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت کے لیے وزیر اعظم مودی کی جانب سے سنگ بنیاد رکھے جانے کے وقت سے ہی کئی طرح کے تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اپوزیشن کے علاوہ متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو 1927میں تعمیر کردہ موجودہ پارلیمان کی جگہ کسی نئی عمارت کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ موجودہ عمارت ایسی ہے کہ اراکین پارلیمان کی تعداد میں مجوزہ اضافے کے بعد بھی ان کی نشستوں کے لیے کافی گنجائش موجود ہے۔

Published: undefined

ملکی اپوزیشن نے اس منصوبے پر آنے والی مبینہ طور پر 1250کروڑ روپے کی لاگت پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسے وقت پر جب ملک میں بے روزگاری اور غربت عروج پر ہیں، اس طرح کے غیر ضروری اخراجات کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نریندر مودی صرف اس لیے ایک نئی عمارت چاہتے تھے کہ ان کا نام ''امر‘‘ ہو جائے۔ بی جے پی نے تاہم ان دلائل کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ نئی عمارت بھارت کے عروج، طاقت اور نئے مستقبل کی علامت ہے۔

Published: undefined

مذہبی رنگ دینے کی کوشش

وزیر داخلہ امت شاہ نے بتایا کہ پارلیمان کی نئی عمارت میں ''سینگول‘‘ نصب کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سینگول ''آزادنہ، مصنفانہ اور مساوی گورننس کی قدروں کی علامت ہے۔‘‘ ان کے اس انکشاف پر بھی ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ سینگول دراصل چاندی سے تیار کردہ ایک 'شاہی عصا‘ ہے، جس پر سونے کی پرت چڑھی ہے۔ اس پر ہندوؤں کے ایک بھگوان شیو کی علامت ''نندی‘‘ کی شکل بھی بنی ہوئی ہے۔

Published: undefined

روایات کے مطابق جنوبی بھارت کے چول دور حکومت میں جب کوئی نیا راجہ بنتا تھا، تو اسے یہ ''شاہی عصا‘‘ دیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جواہر لال نہرو کو بھارت کے پہلے وزیر اعظم کا حلف لینے سے قبل ہندو پنڈتوں نے یہی مذہبی عصا پیش کیا تھا۔ بعد میں اسے الہ آباد (اب پریاگ راج) میں ایک میوزیم میں رکھ دیا گیا تھا۔

Published: undefined

ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت دراصل اس عمل کے ذریعے بھارت میں ''ہندو راشٹر‘‘ یا ہندو ریاست کے قیام کی جانب علامتی طور پر قدم بڑھا رہی ہے۔ (جاوید اختر)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined