کلدیپ یادو تقریباً تین دہائی پاکستانی جیل میں گزارنے کے بعد 25 اگست کو احمد آباد میں اپنے گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ 59 سالہ یادو کی 28 برس بعد اپنی بہن اور تین بھائیوں سے ملاقات کا منظر انتہائی جذباتی تھا۔ یادو نے بھارت سرکار سے مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔ وہ اپنے بھائیوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔
Published: undefined
میڈیا سے بدھ کے روز پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے کلدیپ یادو کا کہنا تھا، "یہ شرٹ جو میں نے پہن رکھی ہے یہ بھی پاکستان کی ہے۔ میرے پاس تو اپنے کپڑے تک نہیں ہیں۔"
Published: undefined
وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے رہائشی کلدیپ یادو کو پاکستانی حکام نے مارچ سن 1994 میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ انہیں گزشتہ 22 اگست کو پاکستانی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا، جس کے بعد بھارتی پنجاب میں واہگہ بارڈر کے راستے بھارت میں داخل ہوئے۔
Published: undefined
یادو نے بدھ کے روز بھارتی میڈیا سے بات چیت کے دوران پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپیل کہ وہ پاکستان کے جیلوں میں بند بھارتی شہریوں کی مصیبت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کی رہائی میں مدد کریں۔
Published: undefined
یادو کا کہنا تھا کہ پاکستانی جیلوں میں بند بہت سے بھارتیوں نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا ہے اور انہیں اپنا نام تک یاد نہیں ہے کیونکہ پاکستانی اہلکار مبینہ شدید اذیتیں دیتے ہیں۔ ایسے بہت سے افراد اپنی قید کی مدت پوری کرنے کے باوجود جیلوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
Published: undefined
اپنی زندگی کے بیش قیمت دن جیل میں کاٹ دینے والے یادو کا کہنا تھا، "ہم جب کبھی حکومت پاکستان اور جیل حکام سے رہائی کی درخواست کرتے ہیں تو وہ صرف ایک بات کہتے ہیں، ''بھارت ہمیں قبول نہیں کر رہا ہے۔ جب بھارتی حکومت ہمیں قبول نہیں کرتی تو ہماری رہائی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
یادو کا کہنا تھا کہ پاکستانی جیلوں میں بھارتی قیدیوں کے ساتھ مبینہ طور پر بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ طویل مدت تک قید میں رہنے اور جیل حکام کے ہاتھوں اذیتیں جھیلنے کی وجہ سے ان قیدیو ں کا رویہ غیرفطری ہو جاتا ہے۔ حتی کہ انہیں اپنا نام اور اپنا پتہ یاد کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔
Published: undefined
یادو نے کہا، ''جب وہ وہاں پکڑے جاتے ہیں اور انہیں اذیتیں دی جاتی ہیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ وہ کچھ بھی، حتی کہ اپنا نام تک، یاد رکھنے کے قابل نہیں رہ جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ ٹھیک ہے کہ وہ اپنا نام بھول چکے ہیں لیکن آخر بھارتی اور بھارت سرکار کو چاہیے کہ انہیں واپس لانے میں مدد کرے۔‘‘
Published: undefined
یادو نے اس حوالے سے بابو رام نامی ایک قیدی کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کے پاس اس کا آدھار کارڈ (قومی شناختی کارڈ) بھی ہے۔ ایک یا دو بھارتیوں کے پاس تو ان کے پاسپورٹ بھی ہیں۔ یاد و کا کہنا تھا، ''یہ بھارت سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کو رہا کرائے کیونکہ وہ اپنے وطن کی محبت میں اور اپنے وطن کی خدمت کے لیے وہاں گئے تھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ دوبارہ اپنے بہن بھائیوں سے ملاقات کر سکے۔
Published: undefined
کلدیپ یادو نے کہا، ''میں چاہتا ہوں کہ تمام بھارتی قیدی بھی اسی طرح اپنے گھر والوں سے دوبارہ مل سکیں جس طرح میں مل پایا۔ بھارت سرکار کو چاہیے کہ پاکستانی جیلوں میں بند بھارتی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں بھارتی جیلوں میں بند پاکستانی قیدیوں کو رہا کر دے۔‘‘
Published: undefined
یادو کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی ملک کے لیے لگا دی لیکن اس کے بدلے میں کچھ نہیں ملا، ''میں اپنی بہن اور بھائیوں پر کب تک منحصر رہوں گا۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ میری مدد کرے۔"
Published: undefined
گجرات یونیورسٹی سے قانون میں گریجویٹ کی ڈگری یافتہ کلدیپ یادو سن 1989ء میں اپنے گھر والوں کو یہ بتا کر کہ وہ دہلی میں ملازمت کی غرض سے جا رہے ہیں گجرا ت سے روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے کام کی نوعیت کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ بعد میں گھر والوں کا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔ یکم فروری سن 2007 کو اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن نے یادو کے گھر والوں کو ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی کہ وہ لاہور کے کوٹ لکھ پت جیل میں ہیں۔ پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے انہیں جاسوسی کے الزام میں 25 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز