بھارت نے تاہم اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کے لیے ان کمپنیوں کو کوئی الٹی میٹم نہیں دیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات کے اعلیٰ عہدیداروں کی سوشل میڈیا کی بڑ ی کمپنیوں گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کے اعلیٰ نمائندوں سے ورچوئل میٹنگ ہوئی ہے۔ بھارتی حکام نے ان کمپنیوں کے رویے پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیک نیوز کے خلاف ان کی جانب سے ٹھوس کارروائی نہ کیے جانے سے بھارتی حکومت ایسا مواد ہٹائے جانے کا حکم دینے پر مجبور ہے۔ لیکن اس وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھارت پر اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے جیسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، جن سے ملک بدنام ہو رہا ہے۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق اس ورچوئل میٹنگ میں بھارتی حکام کا رویہ کافی سخت تھا۔ دونوں جانب سے گرما گرم بحث ہوئی اور بات چیت کے دوران ماحول کشیدہ رہا۔ اسے امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کے مابین تعلقات میں مسلسل وسیع ہوتی ہوئی خلیج کا اشارہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن بھارتی حکام نے ان امریکی کمپنیوں کو فیک نیوز کے خلاف ٹھوس اقدامات کے لیے وقت کے حوالے سے کوئی الٹی میٹم بھی نہیں دیا۔
Published: undefined
مودی حکومت نے حالیہ کچھ عرصے میں سوشل میڈیا کے حوالے سے ٹیکنالوجی سیکٹر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کئی سخت ضابطے بھی بنائے ہیں تاہم حکومت چاہتی ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والے مواد پر خود نگاہ رکھیں۔
Published: undefined
بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے اپنے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دسمبر اور جنوری میں گوگل کے یوٹیوب پلیٹ فارم پر 55 چینلوں کو بلاک کرنے اور ٹوئٹر اور فیس بک پر کئی اکاؤنٹ بند کرنے کا حکم بھی دے دیا تھا۔
Published: undefined
حکومت کا کہنا تھا کہ یہ چینلز 'فیک نیوز‘ یا 'بھارت مخالف‘ مواد کو فروغ دے رہے تھے اور ان کے ذریعے حریف ہمسایہ ملک پاکستان سے بھارت کے خلاف گمراہ کن اطلاعات پھیلائی جا رہی تھیں۔
Published: undefined
گوگل، فیس بک، ٹوئٹر اور اسنیپ چیٹ نے بھارتی حکام کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے حوالے سے فی الحال کوئی بیا ن نہیں دیا۔ گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ نے اس میٹنگ پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ایک بیان میں کہا کہ وہ حکومتی درخواستوں پر غور کرتی ہے اور جہاں مناسب ہوتا ہے، مقامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے متنازعہ مواد کو محدود یا حذف کر دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
ٹوئٹر نے اپنی ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس کے پلیٹ فارم سے مواد کو ہٹانے کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں دینے والے ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت نے سن 2020 میں ایسا مواد ہٹانے کے لیے 97631 درخواستیں دیں، جو روس کے بعد دوسری سب سے بڑی تعداد تھی۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق میٹنگ کے دوران ٹیکنالوجی کمپنیوں کے عہدیداروں نے بھارتی حکام کو بتایا کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرتے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی حکام نے ان سے کہا کہ وہ جھوٹے مواد کو خود بخود ہٹانے کے حوالے سے اپنی اپنی داخلی گائیڈ لائنز پر نظر ثانی کریں۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق مودی حکومت فیس بک اور ٹوئٹر سمیت کئی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس لیے بھی ناراض ہے کہ وہ متنازعہ مواد کا خود پتہ لگانے اور اسے ہٹانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتیں اور اسی لیے حکومت کو خود یہ کارروائی کرنا پڑتی ہے، جس کے سبب اسے تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور اس کا امیج بھی خراب ہوتا ہے۔
Published: undefined
ڈیجیٹل حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ایسے اقدامات اظہار رائے کی آزادی پر روک لگانے کے مترادف ہیں اور ان سے غلط نظیر قائم ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اپار گپتا کے مطابق حکومت آن لائن مواد کو سینسر کرنے سے متعلق اپنے احکامات کی کبھی وضاحت نہیں کرتی اور نہ ہی یہ بتاتی ہے کہ اس نے ایسے فیصلے کن بنیادوں پر کیے۔
Published: undefined
اپار گپتا کہتے ہیں کہ اس عمل کے دوران سرکاری عہدیدار اپنی مرضی کے مطابق ایسا مواد بھی سینسر کر دیتے ہیں، جس سے نہ تو کسی سرکاری حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور نہ ہی جو ریاستی سلامتی کو متاثر کر رہا ہو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز