اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق، جو مردم شماری کے اعداد و شمار اور پیدائش اور اموات کی شرحوں پر مبنی ہیں، بھارت کی آبادی اب کم از کم بھی 1,425,775,850 یا ایک ارب بیالیس کروڑ ستاون لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ سن 1950 میں، جب سے اقوام متحدہ نے آبادی کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا ہے، تب سے یہ پہلا موقع ہے کہ چین آبادی کے لحاظ سے اب پہلےکے بجائے دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔
Published: undefined
اس نئے ریکارڈ کے باوجود عالمی سطح پر اس خبر کو اس طرح سے کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی کہ بھارت عالمی سطح پر کسی بڑھتی ہوئی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔
Published: undefined
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے بھارت کی مجموعی آبادی کے حوالے سے اپنے رد عمل میں کہا کہ ممکن ہے کہ بھارت کے پاس اب زیادہ لوگ ہوں، تاہم چین کے پاس اب بھی زیادہ ’ٹیلنٹ‘ موجود ہے۔
Published: undefined
جرمنی کے ایک معروف جریدے ڈئر اشپیگل نے بھارتی آبادی سے متعلق ایک کارٹون شائع کیا ہے، جس میں حد سے زیادہ لوگوں سے بھری ہوئی ایک بھارتی ٹرین کو، 21 ویں صدی کی جدید ترین اور بہت تیز رفتار چینی ٹرین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
Published: undefined
بھارت میں بہت سے سیاست دانوں اور مبصرین نے اس کارٹون پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور بعض نے تو اسے نسل پرستانہ بھی قرار دیا ہے۔ بھارتی ریاست پنجاب کی حکومت کے سابق چیف سیکرٹری سرویش کوشل نے ایک ٹویٹ میں کہا، ’’آخر ترقی یافتہ دنیا بھارت کو ذلیل کرنے اور اس کے لوگوں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع کیوں ضائع نہیں ہونے دیتی؟ ان کے پاس پریشان ہونے کی ایک وجہ ہے: وہ پرانی شان و شوکت پر قائم ہیں جبکہ تاریک مستقبل انہیں گھور رہا ہے۔‘‘ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کی بھارت کی صرف علامتی حیثیت ہے یا اس سے بڑھ کر بھی اس کی کوئی اہمیت ہے۔
Published: undefined
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں چائنیز اسٹڈیز کے پروفیسر سری کانت کونڈاپلی کہتے ہیں کہ بھارت کے خلاف بعض رد عمل تعصب اور نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے خیال میں آبادی ایک اثاثہ ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ بھارت میں اوسط عمر صرف 27 برس ہے، جو عالمی اوسط سے قدرے کم ہے، انہوں نے کہا کہ اس سے ملک کو ’’آبادی سے فائدہ اٹھانے‘‘ میں مدد ملے گی۔
Published: undefined
ان کا کہنا ہے، ’’بنیادی اشارے ترقی کی نشاندہی کرتے ہیں، ہمارے ہاں خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے اور صحت سے متعلق اعداد و شمار بھی مزید بہتر ہو رہے ہیں۔ ہم آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہیں، اور 2030 تک ہم تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘ بھارت دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک بھی ہے اور عالمی بینک کو توقع ہے کہ آئندہ پانچ برسوں کے دوران بھارتی معیشت میں شرح نمو تقریباً 6.9 فیصد تک رہے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے رواں برس کے دوران 6.1 فیصد کی اوسط شرح نمو کی پیش گوئی کر رکھی ہے۔
Published: undefined
یہ بات درست ہے کہ ملک کی نوجوان آبادی کو ایک اثاثے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تاہم بھارت میں نوجوانوں میں بلند ترین سطح کی بے روزگاری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گزشتہ دسمبر میں شہری علاقوں میں بیروزگاری کی شرح 10.1 فیصد تک پہنچ گئی تھی جبکہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران روزگار سے برطرفی کے واقعات کے باعث اس مسئلے میں مزید اضافہ ہوا۔ نوجوانوں میں ایسے اچھے تربیت یافتہ کارکنوں کی بھی بہت کمی ہے، جو اپنی محنت کا زیادہ معاوضہ حاصل کر سکیں اور ہنر مند ملازمتوں پر بھرتیوں کے حوالے سے تو خاص طور پر کارکنوں کی شدید قلت ہے۔
Published: undefined
مینوفیکچرنگ سیکٹر کے بعض شعبوں میں تو بے روزگاری کی شرح 20 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ مئی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل بھارت میں بے روزگاری اور مہنگائی دو بڑے سیاسی مسئلے بھی بن چکے ہیں۔ کونڈاپلی کا کہنا ہے کہ یہ تو واضح ہے کہ اگر بھارت کو آئندہ برسوں میں اپنی بڑھتی ہوئی آبادی سے فائدہ اٹھانا ہے، تو حکومت کو کس طرح کی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا، ’’اس کے لیے بنیادی ڈھانچے میں بہتری، ہنر مندی کو بہتر بنانا، لوگوں کو کام کرنے کے مواقع فراہم کرنا، کام کے ماحول کو بہتر بنانا اور انسانی وسائل کی ترقی کے دیگر بنیادی اشاریوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
بھارت آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑ رہا ہے، اس پر بیجنگ کو محض علامتی طور پر غور کرنے کے بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہو گی۔ گرچہ فی الوقت چینی معیشت بھارت کے مقابلے میں چار گنا بڑی ہے، تاہم بیجنگ میں ملک کی گرتی ہوئی آبادی اور عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ سن 2050 تک 65 برس سے زیادہ عمر کے چینی شہریوں کی تعداد دو گنا ہو جائے گی جس سے موجودہ افرادی قوت پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا۔
Published: undefined
چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی نے اس سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات متعارف کرائے ہیں، جن کا مقصد ملک میں شرح پیدائش کو بڑھانا ہے۔ بھارتی آبادی سے پیچھے ہونے کے سوال پر چین کے سرکاری میڈیا کی جانب سے جو رد عمل سامنے آیا ہے، وہ صورتحال پر مایوسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
Published: undefined
کونڈاپلی کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ خواندگی اور صحت کی دیکھ بھال جیسے اہم شعبوں میں چین اب بھی بھارت سے کافی آگے ہے، تاہم یہ فرق اتنا وسیع نہیں ہے جتنا بیجنگ دکھانے کی کوشش کر تا ہے۔ تاہم وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کسی سپر پاور کا درجہ حاصل کرنے کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آپ جی ڈی پی کی بنیاد پر، ٹیکنالوجی کی بنیاد پر، فوجی طاقت کی بنیاد پر، سافٹ پاور کی بنیاد پر سپر پاور بنتے ہیں۔ کوئی بھی ملک صرف اپنی آبادی کی بنیاد پر سپر پاور نہیں بنتا۔‘‘
Published: undefined
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ بیجنگ اپنے نظریے کے لحاظ سے اس سوال پر دہلی سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ’’بھارت کی سپر پاور بننے کی خواہش بھی نہیں ہے۔ ہم نے شی جن پنگ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ چین مرکزی سٹیج پر اپنی موجودگی چاہتا ہے، تاہم کسی بھارتی رہنما نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بھارت سپر پاور بننا چاہتا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز