تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم مودی اس وقت ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف وہ بھارت کے اتحادی عرب اور مسلم ممالک کو خوش رکھنا چاہتے ہیں دوسری طرف اپنے اصل ووٹر ہندو قوم پرستوں کو بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ پیغمبر اسلام کی اہانت کا تنازع ایسے وقت شدت اختیار کرتا جارہا ہے جب بھارت خلیجی ملکوں کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مستحکم کررہا ہے۔
Published: undefined
حالانکہ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور مودی حکومت دونوں معاملے کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ تاہم عام تاثر یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ آٹھ برسوں میں خلیج اور دیگر مسلم ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے جتنی محنت کی تھی اس پر بڑی حد تک پانی پھر گیا ہے۔
Published: undefined
خلیجی اور اسلامی ممالک بھارت کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ بھارت 65 فیصد خام تیل مشرق وسطٰی کے ملکوں سے درآمد کرتا ہے اور وہاں کام کرنے والے لاکھوں بھارتی ہر سال اربوں ڈالرکا زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں۔
Published: undefined
وزیر اعظم مودی خود بھی اس حقیقت کا اعتراف کرچکے ہیں۔ سن 2019 میں سعودی عرب کے دورے کے دوران 'عرب نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا،''تقریباً 26 لاکھ بھارتیوں نے سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر بنایا ہے۔ وہ یہاں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس پر بھارت کو فخر ہے۔ ان کی سخت محنت اور لگن سے سعودی عرب میں بھارت کا وقار بڑھا ہے۔‘‘ مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ خلیجی ملکوں میں بھارت کے 80 لاکھ افراد رہتے ہیں۔ یہ لاکھوں لوگ یہاں سے اربوں ڈالر زرمبادلہ بھارت بھیجتے ہیں۔
Published: undefined
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 34 لاکھ ''نان ریزیڈنٹ انڈین‘‘ این آر آئی، بھارتی باشندے بیرونی ملکوں میں رہتے ہیں اور اگر بھارتی نژاد افراد کی تعداد بھی ان میں شامل کرلی جائے تو یہ لگ بھگ تین کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے۔ غیرمقیم بھارتیوں (این آر آئی) کی سب سے بڑی اور مجموعی تعداد کا تقریباً نصف خلیجی ملکوں میں ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ تعداد 34 لاکھ، سعودی عرب میں 26 لاکھ اور کویت میں دس لاکھ سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
مبصرین کے مطابق اگر خلیجی ملکوں میں بھارت کے خلاف ناراضگی بڑھتی ہے اور وہ بھارتیوں کو اپنے یہاں ملازمت نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو تقریباً ڈیڑھ کروڑ بھارتیوں کو وطن واپس لوٹنا پڑے گا۔ جبکہ بھارت میں سرکاری ادارے سی ایم آئی ای کے مطابق پہلے سے ہی پانچ کروڑ 30لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔
Published: undefined
ورلڈ بینک کے مطابق گزشتہ برس بیرون ملکوں میں کام کرنے والے بھارتیوں نے جتنا زرمبادلہ بھیجا اس میں خلیجی ملکوں میں کام کرنے والوں کا تعاون 45 فیصد تھا۔ اسلامی ملکوں میں رہنے والے بھارتیوں نے تین لاکھ کروڑ روپے وطن بھیجے۔ یہ رقم بھارت کی دو بڑی ریاستوں اترپردیش اور بہار کو ٹیکس سے ہونے وصول ہونے والی مجموعی آمدنی 1.56 لاکھ کروڑ روپے سے تقریباً دو گنا ہے۔
Published: undefined
بھارت کے معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے مطابق بھارت اپنی تیل کی ضروریات کا 84 فیصد درآمد کرتا ہے۔ ان میں سے تقریباً 60 فیصد خلیج فارس کے ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک بھارت کے اہم تجارتی پارٹنرز ہیں سال 2021-22میں متحدہ عرب امارات امریکہ اور چین کے بعد تیسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر رہا۔ سعودی عرب بھارت کا چوتھا اور عراق پانچواں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
Published: undefined
سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی وزیر اعظم مودی خلیجی ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان رویش کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں مودی حکومت عرب اور مسلم ملکوں کے ساتھ زیادہ قریبی اور مستحکم تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے اور وزیر اعظم مودی اس کے لیے ذاتی طور پر جس قدر کوششیں کررہے ہیں اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
Published: undefined
وزیر اعظم مودی نے خود بھی دسمبر 2019 میں ایک عوامی جلسے سے خطا ب کرتے ہوئے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا، ''اپنی تاریخ میں بھارت کے خلیجی ملکوں کے ساتھ اس وقت سب سے بہتر تعلقات ہیں۔‘‘
Published: undefined
لیکن اہانت پیغمبر اسلام کے تنازعے نے حالات بدل دیے ہیں۔ مغربی ایشیائی امور کی ماہر پروفیسر سجاتا مہتا نے لکھا ہے،''بی جے پی کی گھریلو سیاست خارجہ پالیسی کے لیے نقصان دہ ہے۔ گھریلو سیاست کا اثر خارجہ پالیسی پر بھی پڑتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بھارتی خلیجی ملکوں میں کام کررہے ہیں،ایسی گھریلو سیاست ان کی روزی روٹی پر اثرانداز ہوگی اور عرب ملکوں کی ناراضگی سے بھارت کو جو نقصان ہوگا وہ کافی بھاری پڑے گا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined