رواں برس روسی وزیر خارجہ لاوروف کی بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ پانچویں ملاقات تھی۔ روسی خبر رساں ایجنسی تاس کی اطلاع کے مطابق لاوروف کا کہنا تھا، "ہم نے فوجی تکنیکی تعاون بشمول جدید ہتھیاروں کی صورت حال اور تیاری امکانات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی۔" تاس نے تاہم مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
Published: undefined
لاوروف کا کہنا تھاکہ دونوں مملک اپنے تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں اور جوہری توانائی اور خلائی سفر جیسے شعبوں میں بھی زیادہ قریبی تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت دہائیوں تک روسی فوجی ساز و سامان پر انحصار کرتا رہا ہے۔ جب کہ روس بھارتی دواؤں اور طبی مصنوعات کا چوتھا سب سے بڑا مارکیٹ بھی ہے۔
Published: undefined
فروری میں یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا یہ ماسکو کا پہلا دورہ تھا۔ ان کے ساتھ وزارت زراعت، پٹرولیم اور قدرتی گیس، بندرگاہوں اور جہاز رانی، خزانہ، کیمیکلز اور فرٹیلائزر اور تجارت کے اعلیٰ افسران بھی دورے پر گئے ہیں۔
Published: undefined
جے شنکر کا کہنا تھا، "روس ہمارا مستحکم اور وقت کی کسوٹی پر پورا اترنے والا شراکت دار ہے۔ اگر پچھلے کئی دہائیوں پر مشتمل ہمارے باہمی تعلقات کا معروضی تجزیہ کیا جائے تو اس بات کی تصدیق ہوگی کہ اس نے درحقیقت دونوں ملکوں کے مفادات کو بہت، بہت ہی بہتر طور پر پورا کیا ہے۔"
Published: undefined
خیال رہے کہ بھارت کے ماسکو اور مغرب دونوں کے ساتھ ہی قریبی تعلقات ہیں اور یہ ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جس نے یوکرین میں روسی جنگ کی مذمت نہیں کی ہے۔ نئی دہلی روس کے خلاف مغربی پابندیوں کی بھی حمایت نہیں کرتا اور اس کے بجائے تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے حق میں ہے۔
Published: undefined
جے شنکر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت روس سے تیل کی خریداری جاری رکھے گا۔ چونکہ مغربی ممالک ماسکو سے ایندھن پر اپنا انحصار کم سے کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ایسے میں بھارت چین کے بعد روس سے ایندھن خریدنے والا دوسرا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔
Published: undefined
بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، "دنیا میں تیل اور گیس کے تیسرے سب سے بڑے صارف کے طور پر نیز ایک ایسے ملک کے طور پر جس کی آمدنی بہت زیادہ نہیں ہے، ہمیں سستے وسائل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اس لیے بھارت اور روس کے درمیان تعلقات ہمارے لیے ایک اضافی فائدہ ہے۔"
Published: undefined
خیال رہے کہ فروری میں یوکرین پر فوجی حملے سے قبل بھارت کی روس سے تیل کی درآمدات تقریباً 2 فیصد تھی جو کہ ستمبر میں اب تک کی سب سے زیادہ شرح 23 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ دریں اثنا امریکہ نے بھارت اور روس کے درمیان تجارت میں اضافہ کی کوششوں کی نکتہ چینی کی ہے۔
Published: undefined
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ روس کے ساتھ تجارت کا وقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا،"یہ بات ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے کہ بھارت دھیرے دھیرے روس پر اپنا انحصار کم کرے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined