قطری عدالت کی جانب سے بھارتی بحریہ کے سابق آٹھ افسروں کو موت کی سزا سنائے جانے کے چند دن بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے نئی دہلی میں ان افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور وعدہ کیا کہ حکومت ان کی رہائی کے لیے "تمام ممکنہ کوششیں" کرے گی۔
Published: undefined
جے شنکر نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا، "حکومت اس کیس کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ میں متاثرہ خاندان کے خدشات اور تکلیف میں پوری طرح شریک ہوں اور ہماری حکومت ان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے تمام کوششیں جاری رکھے گی۔"
Published: undefined
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارتی بحریہ کے سابق افسران خلیج میں قائم ایک نجی کمپنی الظاہرہ کے لیے کام کرتے تھے۔ الظاہرہ کی ویب سائٹ کے مطابق کمپنی ایرواسپیس، سکیورٹی اور دفاعی شعبوں میں "مکمل معاونتی حل" فراہم کرتی ہے۔
Published: undefined
نہ تو نئی دہلی نے اور نہ ہی دوحہ نے الزامات کی تفصیلات بتائی ہیں تاہم بھارتی روزنامہ "دی ہندو" کے مطابق ان افراد پر، جنہیں اگست 2022 میں دوحہ میں گرفتار کیا گیا تھا، ایک "تیسرے ملک" کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جب کہ روزنامہ "ٹائمز آف انڈیا" کا کہنا ہے کہ "مختلف رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان افراد پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔"
Published: undefined
خبررساں ادارے روئٹرز نے بھی بھارت اور قطر میں بغیر نام ظاہر کیے گئے حوالوں کی بنیاد پر کہا ہے کہ ان افراد پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایک انٹلیجنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "اگرچہ مخصوص الزامات کو عوامی طور پر کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا ہے لیکن انہیں قید تنہائی میں رکھا جانا سکیورٹی کے متعلق ان کے ممکنہ جرائم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔"
Published: undefined
قطر خلیج فارس میں گیس سے مالامال ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کے تاریخی دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ تجارت کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ بھارت اپنی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کا 40 فیصد قطر سے حاصل کرتا ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ قطر میں رہنے والی بڑی تعداد میں بھارتی برادری اپنے ملک کے لیے غیر معمولی ترسیلات زر فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس تناظر میں سابق سفارت کاروں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے فیصلے نے بھارت کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور یہ بھارت اور قطر کے باہمی تعلقات کے لیے ایک حساس معاملہ بن گیا ہے۔
Published: undefined
سابق سفارت کار اور قطر میں مقرر کی جانے والی پہلی بھارتی خاتون سفیر دیپاگوپالن وادھوا کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تمام بھارتیوں کے لیے ایک صدمہ ہے اور بھارتی حکومت کے بیانات اور عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کیس کو سب سے زیادہ ترجیح دی جارہی ہے۔
Published: undefined
وادھوا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "قطر میں سات لاکھ سے زیادہ بھارتی رہتے ہیں، جنہوں نے خلیجی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور دونوں ملکوں میں قریبی اقتصادی اور سیاسی تعلقات رہے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ قطر اور بھارت اس معاملے کو "باہمی تعلقات کے وسیع تر مفادات" کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔
Published: undefined
وادھوا کا مزید کہنا تھا کہ "ہمارے شہریوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ انہیں ہر طرح کی قانونی مدد فراہم کی جائے گی اور مجھے یقین ہے، جیسا کہ معمول بھی ہے، اعلیٰ ترین سطحوں تک اپیل کی جائے گی۔"
Published: undefined
نئی دہلی میں جواہر لال یونیورسٹی میں سینٹر فار ویسٹ ایشیئن اسٹڈیز کے استاد مدثر قمر کا کہنا تھا کہ الزامات کی مکمل فہرست کا پتہ لگانا، قانونی سیاق و سباق اور مضمرات پر غور کرنا اورملزمان کی جان بچانے کے لیے ممکنہ قانونی، سفارتی اور سیاسی طریقے تلاش کرنا فوری ترجیحات ہیں۔
Published: undefined
مدثر قمر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" قطری عدالت کی جانب سے، اب تک نامعلوم الزامات کی بنیاد پر بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو سنائی گئی سزا بھارت اور قطر کے درمیان، بالخصوص اس کیس کی حساسیت کے مدنظر، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے لیے ایک سنگین امتحان کا باعث بن سکتی ہے۔"
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ،" سزائے موت کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ الزامات کی نوعیت سنگین ہے۔ حکومت کے ردعمل پر غور کیا گیا ہے، اور اس معاملے کی پیچیدگی اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر غور کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں سازگار نتیجہ حاصل کرنے کے لیے سفارتی اور سیاسی طورپر مناسب انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔"
Published: undefined
دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کے علاوہ سیاسی تعلقات بھی ہیں جس کا ثبوت حالیہ برسوں میں اعلیٰ سطحی دوروں کے دوران دیکھنے کو ملا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جون 2016 میں قطر کا دورہ کیا تھا اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے ایک سال قبل بھارت کا سرکاری دورہ کیا تھا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات بھی مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ بھارت قطر دفاعی تعاون کا معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون میں ایک اہم سنگ میل کے طورپر کام کرتا ہے۔
Published: undefined
قطر کے لیے سابق بھارتی سفیر کے پی فابیان کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے تمام ممکنہ متبادل کا جائزہ لے گا اور جتنا جلد ممکن ہو قطر کے امیر سے باضابطہ طور پر رابطہ کرنا سمجھداری کی بات ہو گی۔ فابیان کے خیال میں قطر بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات سے واقف ہے اور امید ظاہر کی کہ بحریہ کے سابق اہلکاروں کو معاف کر دیا جائے گا۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، "اسلامی ملکوں میں رمضان کے مقدس مہینے میں معافی دینے کا رواج ہے۔ خوشی قسمتی سے قطر میں معافی کی درخواستیں طویل افسر شاہی کی شکار نہیں ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں امیر قطر کے دفتر کی سفارش ہی کافی ہوتی ہے۔" فابیان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں پہلے جوائنٹ سکریٹری اور پھر سفیر کے طورپر کام کرنے کے دوران اپنے تجربات کی بنیاد پر انہیں قوی امید ہے کہ ان آٹھوں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined