سال 2022ء کے دوران خیبر پختونخوا میں مختلف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں کُل 329 بچے گرفتار کیے گئے۔ ان میں سے 265 بچوں پر قتل، اقدام قتل، ریپ، چوری، راہزنی اور دیگر سنگین جرائم کے الزامات تھے۔ صوبے میں ایسے جرائم میں ملوث نابالغ ملزمان کی شرح میں اضافے کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں، جن میں والدین کی سرپرستی نہ ہونے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مابین عدم تعاون بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
قانون سازی سے قبل سبھی سماجی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لینا اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی جانب سے آگہی کا فقدان بھی ایسے جرائم کی شرح میں اضافے کی بڑی وجوہات قرار دیے جاتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے گراس روٹ لیول پر کام کرنے کے بجائے مہنگے ہوٹلوں میں ورکشاپیں اور سیمینار منعقد کراتے اور بڑے اشاعتی اداروں کے ذریعے اپنی مہمیں چلا تے ہیں تاکہ مالی معاونت کرنے والے اداروں کی توجہ حاصل کر سکیں۔
Published: undefined
خیبر پختونخوا کی 80 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ یہ شہری اکثر بچوں کے حقوق کے حوالے سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔ ان دیہی علاقوں میں زیادہ تر بچے تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اب صوبے کا باقاعدہ حصہ بنائے جا چکے سابقہ قبائلی علاقوں میں تو صورت حال کہیں بد تر ہے۔
Published: undefined
ان نئے اضلاع میں پانچ سے دس سال تک کی عمر کے 70 فیصد سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق تو صوبے میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 7.4 ملین بنتی ہے۔
Published: undefined
صوبائی پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محمد علی باباخیل کہتے ہیں، ''خیبر پختونخوا ملک کا ایسا پہلا صوبہ ہے، جس نے پولیس ایکٹ 2017ء کے نام سے قانون بنایا، جس میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی شقیں موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا پولیس نے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں سے چھان بین کا ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔‘‘
Published: undefined
تاہم اے آئی جی باباخیل نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’پاکستان شاید سب سے زیادہ قانون سازی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن قانون ساز قوانین بنانے کے بعد مڑ کر پیچھے بھی نہیں دیکھتے۔ نہ تو قانون بنانے سے قبل ہوم ورک کیا جاتا ہے اور نہ ہی قانون سازی کے بعد اس کے عملی نفاذ کو یقینی بنانے یا اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے لیے کوئی نظام موجود ہے۔‘‘
Published: undefined
محمد علی باباخیل کے مطابق، ''اگر کوئی بچہ غلط کام کر رہا ہو، تو ہم عوامی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ہمارے ہاں بالخصوص سائبر کرائمز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل فری ایجوکیشن، مفت بستے، فری لیگل ایڈ اور صحت مند بچوں کی پیدائش کے حوالے سے شادی سے قبل مردوں اور عورتوں کے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرائے جانے کا قانون بھی بنایا تھا، لیکن آج تک اس قانون پر عمل درآمد کے لیے بھی کوئی قواعد و ضوابط طے نہیں کیے جا سکے۔
Published: undefined
خیبر پختونخوا میں نابالغ ملزمان کو انصاف دلانے کی کوششیں کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے ایک وکیل نور عالم خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ''یہ خطہ چار دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ بہت بڑی تعداد میں بچے یتیم ہو گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بچوں کے تمام ترحقوق کی بھی نفی کر دی گئی۔ خیبر پختونخوا میں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان سے متعلق آگہی کا فقدان ہے۔‘‘
Published: undefined
نور عالم خان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے والدین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتے، بچوں کو ایسی تربیت نہیں دیتے کہ وہ معاشرے کے کارآمد ارکان بن سکیں، ''حکومتی اداروں کو موجودہ قوانین کو نافذ کرنے کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی مؤثر اقدامات کرنا چاہییں۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جرم کی آڑ میں معصوم بچوں کا استحصال نہ کیا جائے۔ اگر بچوں کو مناسب تربیت نہ دی جائے اور معاشرہ بھی ان بچوں کو ان کے حقوق نہ دے تو یہی بچے پورے معاشرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
پشاور میں صوبائی حکومت نے 2010ء میں چائلڈ پروٹیکشن کا قانون منظور کروایا تھا تاہم اس کے لیے قواعد و ضوابط پانچ سال بعد متعارف کرائے گئے۔ چائلڈ پروٹیکشن خیبر پختونخوا کے سربراہ اعجاز محمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دیہی اور شہری علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ کمیٹیاں بنا چکے ہیں، جن کا کام بچوں کے استحصال کے خلاف آگاہی پھیلانا بھی ہے اور بچوں کے تحفظ کے منافی واقعات کی مرکز کو اطلاع دینا بھی۔‘‘
Published: undefined
اعجاز محمد خان نے بتایا، ''ہم اب تک تقریباﹰ چار ہزار بچوں کے خلاف کیس حل کرا چکے ہیں۔ چائلڈ میرج کے متعدد واقعات میں بھی ہم مداخلت کر کے ایسے واقعات کو روکنے میں کامیاب رہے۔ ان میں ایسے بچے بھی تھے، جن کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ متعلقہ قانون میں اب بھی سقم موجود ہیں، جن کے باعث پولیس ایسے ہر واقعے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں اس وقت بچوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں میں سے آٹھ خیبر پختونخوا میں ہیں۔ اس صوبے میں بچوں کے حوالے سے ہنگامی حالات میں ٹیلی فون نمبر 1121 پر کال کر کے ہیلپ لائن پر فوری شکایت بھی کی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز