ہیلگے لمبرگ کو 7جنوری کی ہر چیز یاد ہے۔ گرین پارٹی کے اس جرمن رکن پارلیمان کے لیے یہ"غم و غصے کا دن" تھا۔ اسی روز ایران میں محمد مہدی کرامی کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس کراٹے چمپئن کی عمر صرف 22 برس تھی جب ان کو "قتل" کر دیا گیا کیونکہ لمبرگ کے مطابق "پھانسی دینے سے قبل قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔"
Published: undefined
لمبرگ کی محمد مہدی کرامی سے کوئی ذاتی شناسائی نہ تھی لیکن اس جرمن سیاست داں نے خود کو نوجوان ایرانی کا کفیل قرار دیا تھا۔ ایران میں جمہوریت کی تحریک کے ساتھ یکجہتی کے لیے یہ ان کا ایک سیاسی عمل تھا۔ دراصل انہیں امید تھی کہ ان کی کوششوں سے کرامی کی سزائے موت پر عمل درآمد رک جائے گا۔
Published: undefined
فاصلہ اور اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں کرامی سے کبھی فون پر بھی بات کرنے کا موقع نہیں ملا لمبرگ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے تعلقات کے کس طرح پروان چڑھے۔ "میرا ان کے قریبی لوگوں کے ساتھ کبھی کبھار رابطہ ہوتا تھا اور میں ان کو بہت قریب سے محسوس کرتا تھا۔ میرے خاندان کے افراد بھی اس کے سکھ دکھ میں ساتھ تھے۔"
Published: undefined
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے حقوق انسانی فولکر ترک کے مطابق کرامی ان کم از کم 209افراد میں سے ایک ہیں جنہیں اس سال پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ایران دنیا میں سزائے موت کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس کی عکاسی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ جس میں سال 2022 کے دوران دنیا بھر میں پھانسیوں اور موت کی سزاوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
Published: undefined
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران نے 2022 میں 582 افراد کو پھانسی دی۔ ایران میں گزشتہ برس کم از کم 576 افراد کو پھانسی دی گئی جو کہ اس سے پچھلے برس یعنی 2021 کے مقابلے میں تقریبا ً دو گنا ہے۔
Published: undefined
ادھرخلیج فارس کی دوسری طرف بھی پھانسی پر لٹکائے جانے والوں کی تعداد آسمان کو چھو رہی ہے۔ سعودی عرب میں سن 2021 میں 196 افراد کو پھانسی دی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالامارد نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا، "آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن سعودی عرب میں ایک ہی دن میں 81 افراد کو پھانسی دی گئی۔" اس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں دی جانے والی 80 فیصد سے زائد پھانسیاں ایران اور سعودی عرب میں دی جاتی ہیں۔
Published: undefined
دنیا کے 20 ملکوں میں سن 2022میں موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کم از کم 883 افراد کے سرقلم کیے گئے، پھانسی دی گئی، گولی ماردی گئی یا انہیں زہر دیا گیا۔ یہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران سب سے بڑی تعداد ہے اور سن 2021 کے مقابلے 300کیسز یا 50 فیصد سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
ان اعداد و شمار میں چین میں دی جانے والی پھانسیاں شامل نہیں ہیں، جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ہزاروں میں ہے۔ چین میں سزائے موت کے نفاذ کی ملکی راز کے طور پر حفاظت کی جاتی ہے۔ یہی حال ویت نام کا ہے۔ شمالی کوریا، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہاں ضرورت سے زیادہ سزائے موت کا استعمال کیا جاتا ہے، کے اعدادو شمار بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں شامل نہیں ہیں۔ سزائے موت پر عمل درآمد ان ملکوں میں بھی ہوتا ہے جنہیں جرمنی اپنا شراکت دار قرار دیتا ہے۔ مثلاً امریکہ، جاپان اور سنگاپور۔
Published: undefined
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق تمام درج شدہ پھانسیوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ منشیات کی اسمگلنگ کی سزا کے طورپر دی گئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ "حقیقت یہ ہے کہ کچھ ممالک سزائے موت کو اپنی فوجداری قانون کے روایتی حصے کے طورپر شامل اور استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔"
Published: undefined
کالامارد کے مطابق یہ انسانی حقوق کے خلاف اس لیے ہے کہ یہ قوانین ایسے جرائم کے لیے سزائے موت کو واضح طورپر منع کرتے ہیں جو"سب سے سنگین جرائم" ہونے کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ مثلا ً منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا قتل۔" انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ مجرموں کو سزائے موت دینے سے نہ تو قتل کے واقعات کم ہوتے ہیں اور نہ ہی منشیات سے متعلق جرائم پر روک لگانے میں مدد ملتی ہے۔
Published: undefined
اس تاریک تصویر میں تاہم کسی حد تک امید کی کرن بھی نظر آتی ہے۔ سال 2022میں مزید چھ ملکوں نے اپنے یہاں سزائے موت کو مکمل یا جزوی طورپر منسوخ کردیا۔ یہ خوشگوار تبدیلی بالخصوص افریقی ملکوں میں آرہی ہے۔ سیئرا لیون اور وسطی افریقی جمہوریہ نے سزائے موت کو مکمل طورپر ختم کردیا ہے۔ استوائی گنی اور زامبیا نے اسے مکمل طور پر تو نہیں لیکن جزوی طورپر تقریباً ختم کردیا ہے۔لائبیریا اور گھانا بھی سزائے موت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Published: undefined
سال 2022کے اواخر تک دنیا کے مجموعی طورپر 112 ممالک نے سزائے موت کو ختم کر دیا تھا۔ دسمبر میں اقوام متحدہ کے تقریباً دو تہائی رکن ممالک، 125ملکوں نے، اس کے استعمال پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز