جنوبی پنجاب میں کئی غریب خاندانوں کے مرد اپنے گھروں کی خواتین اور بچیوں کو دور دراز کے بڑے شہروں میں مزدوری کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پیشگی رقوم حاصل کر کے 'ایک طرح سے بیچ دیتے‘ ہیں۔
Published: undefined
بعض خواتین مالی مجبوریوں کے باعث اپنے گھروں سے نکل کر محنت مزدوری کی شکل میں کام تلاش کرتی نظر آتی ہیں، لیکن کسی بھی فنی تربیت سے محروم ہونے کی وجہ سے اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے وہ لوگوں کے گھروں میں کام شروع کر دیتی ہیں، جو عملاً بیگار ہی ہوتی ہے۔
Published: undefined
ایسی ہی ایک خاتون پروین شہزاد ملتان کے علاقے قادر پور راون میں پیدا ہوئی۔ اس وقت اس کی عمر ستائیس برس ہے۔ پروین نے بتایا کہ اس کی شادی صرف تیرہ برس کی عمر میں اس سے بہت بڑی عمر کے ایک شخص سے کر دی گئی تھی۔ شروع کے چند سال تو وہ اس بات پر مار کھاتی رہی کہ اولاد کیوں پیدا نہیں کر پا رہی تھی۔ پھر یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم میں وہ اس لیے مار کھاتی رہی کہ اس نے بیٹا کیوں نہ پیدا کیا۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پروین نے مزید بتایا، ''کئی امراض میں مبتلا بوڑھا شوہر جب انتقال کر گیا تو میری شادی زبردستی سب سے چھوٹے لیکن ایسے دیور سے کر دی گئی، جو کوئی کام نہیں کرتا تھا اور نشے کا عادی تھا۔‘‘ پروین اب اسلام آباد کے مضافات میں ایک گاؤں میں رہتی ہے اور مختلف گھروں میں کام کر کے اپنی گزر اوقات کرتی ہے۔
Published: undefined
پروین کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ گھروں کی مالکنیں بہت زیادہ کام کرواتی ہیں اور معاوضہ بہت کم دیتی ہیں۔ پھر اکثر گھروں میں مرد ہراساں بھی کرتے ہیں۔
Published: undefined
بہاولنگر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نادیہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو اپنی زندگی کے تلخ حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس کے والد نے دو شادیاں کی تھیں اور دونوں بیویوں سے ہونے والے چودہ بچوں میں سے وہ آخری نمبر پر ہے۔ بچوں کو پڑھانے کا خاندان میں کوئی رواج نہیں تھا، خاص طور سے لڑکیوں کو تو پندرہ سولہ سال کی عمر میں کسی ایسے بھرے پرے گھرانے میں بیاہ دیا جاتا تھا جہاں افراد خانہ کی تعداد بھی آٹھ دس تک ہوتی تھی۔
Published: undefined
نادیہ کی شادی بھی ایک ایسے ہی زیادہ افراد پر مشتمل خاندان شادی ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ مار پیٹ بھی کی جاتی تھی۔ مار پیٹ کے اسی ماحول میں نادیہ نے ایک بیٹی کو جنم دیا تو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا۔ پھر اس کے شوہر کا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔ تب اس کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ شوہر کے انتقال سے گھر کے حالات خرب تر ہو گئے۔ دو ماہ بعد جب نادیہ کے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوئی، تو ساس اور سسر نے نادیہ کو دونوں بیٹیوں سمیت گھر سے نکال دیا۔
Published: undefined
نادیہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں سسرال سے لٹی پٹی میکے پہنچی، جہاں میرے تین بھائی بھابھیاں سولہ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہاں سب نے صاف کہہ دیا کہ یہاں رہنا ہے تو اپنی دونوں بیٹیوں کو سسرال کے حوالے کر کے آؤ۔ یہ بات میرے لیے ہرگز قابل قبول نہ تھی۔ یوں میرا میکہ بھی چھوٹ گیا۔ اب ایک کمرے کے کرائے کے گھر میں رہتی ہوں، گھروں میں کام کرتی ہوں۔‘‘
Published: undefined
نادیہ کا مزید کہنا تھا، ''ایک باجی بہت اچھی ہیں، میرے بچوں کو اسکول میں پڑھا رہی ہیں اور سارا خرچہ بھی اٹھاتی ہیں۔ اپنوں سے تو غیر ہی اچھے نکلے۔ اکثر میری چھوٹی بیٹی پوچھتی ہے کہ اماں، باپ کیسا ہوتا ہے؟ میرے پاس اس بات کا آنسوؤں کے سوا کوئی جواب نہیں۔‘‘
Published: undefined
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی شبینہ فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت اس کی عمر چالیس برس ہے، ''جب میں پانچ سال کی تھی، تو میری ماں مجھے پانچ ہزار روپے پیشگی کے عوض کام پر رکھوا گئی تھی۔ اسی گھر میں جب میں تیرہ برس کی ہوئی، تو ایک دوسرے شہر سے آنے والے اسی خاندان کے ایک دور کے رشتے دار نے مجھے ریپ کیا۔ میں نے بہت شور کیا۔ واپس گھر آ گئی۔‘‘
Published: undefined
شبینہ نے مزید بتایا، ''میرے گھر والوں نے معافی تلافی کر کے ان سے تیس ہزار روپے لے کر مجھے واپس اسی گھر میں کام کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ مجھے اپنے ہی گھر والوں سے نفرت ہو گئی۔ پھر میرے ساتھ اس گھر میں کئی بار ایسا ہوا لیکن میرے اپنے گھر والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ بس میری تنخواہ کی ماہانہ رقم کھاتے رہے۔‘‘
Published: undefined
یہ سب المناک واقعات پاکستان میں غریب اور محروم طبقے کی خواتین کی زندگیوں کے عام واقعات ہیں۔ معاشرے کا ایسا حصہ جہاں عورت کا مسلسل استحصال کیا جاتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
Published: undefined
ملتان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن اور صحافی انیلا اشرف نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سماجی اور قانونی سطح پر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو آج تک مزدور تصور نہیں کیا جاتا۔
Published: undefined
انیلا اشرف کے مطابق، ''2018ء سے قبل اس وقت کی حکومت پنجاب نے البتہ اعلانات کیے تھے اور محکمہ لیبر کو گھریلو مزدور خواتین کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کی ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا گیا تھا کہ گھریلو ملازماؤں کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہو گیا تھا۔‘‘
Published: undefined
اس ابتدا میں زور شور سے کام کا آغاز کیا گیا تاہم بعد میں ایسے اعلانات عدم دلچسپی کی نذر ہو گئے۔ اس منصوبے کا مقصد گھریلو ملازم خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا تھا تاکہ نہ تو ایسی خواتین کا معاشی استحصال ہو سکے اور نہ ہی وہ سوشل سیکورٹی اور دیگر سہولیات سے محروم رہیں۔ لیکن عملاً حقیقت آج بھی یہی ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو نہ تو مزدور سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی انسان۔
Published: undefined
انیلا اشرف کے مطابق، ''ایسی گھریلو ملازمت پیشہ خواتین کی زندگیوں کو پدر شاہی نظام نے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی کا ہر فیصلہ مرد کرتے ہیں۔ اسی لیے بڑے شہروں کی بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں میں انہیں کام کرنے کے لیے بغیر کسی قانونی تحفظ کے بھیج دیا جاتا ہے۔ یوں ایسی خواتین اور بچیوں پر تشدد کے واقعات بھی عام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک زیر التوا خواتین ورکرز تحفظ بل 2019 پر کام جاری رکھنا اشد ضروری ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز