ولی عہد عباس خان عباسی نے نواب آف بہاولپور صادق خان پنجم کی زندگی کے آخری دنوں میں پوچھا کہ بابا سائیں کوئی نصیحت جو آگے چل کے میرے کام آئے؟ نواب ضادق خان پنجم نے فرمایا، ”اس شخص سے ہمیشہ ڈرتے رہنا، جو تمہارے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کے ملے۔"
Published: undefined
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں، یہ سب تیرے نہیں
یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کس کو معلوم یہ کب تیرے ہیں، کب تیرے نہیں ( افتخار عارف )
Published: undefined
کیا عجب بات ہے کہ جب ہم کسی تقریب کے لیے تنبو، قنات، کراکری، کرچھے، دیگیں، دریاں، پنکھے، واٹر کولر، کرسیاں اور میزیں کرائے پر لیتے ہیں، تو انہیں گن کے واپس کرتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار کا منڈپ سجانے کے لیے بندے کرائے پر لیتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ یہ کرائے کے لوگ ہیں۔ انہیں واپس بھی لوٹانا ہے۔
Published: undefined
وہ زمانے گئے جب لوگ بکا کرتے تھے۔ اب بکنے والے بھی سیانے اور پروفیشنل ہو چکے ہیں۔ آپ اب انہیں کرائے پر لے سکتے ہیں، خرید نہیں سکتے۔ ایک زمانے تک وفاداری فروشی کے کاروبار سے منسلک بندوں کو بے پیندے کے لوٹے کہا جاتا تھا۔
Published: undefined
اس کارروبار کی بنیاد تقسیم سے قبل سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستداں ڈاکٹر محمد عالم نے ڈالی۔ انہوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیانی عرصے میں کیا تحریکِ خلافت، کیا مسلم لیگ، کیا مجلسِ احرار اور کیا یونینسٹ پارٹی، غرض گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا اور اس دور کی صحافت سے ڈاکٹرعالم لوٹا کا خطاب پایا۔ ان کا انتقال پاکستان بننے سے تین ماہ قبل مئی 1947 میں ہوا تھا۔
Published: undefined
نئے ملک میں جو صنعتیں ابتدا سے پھلنا پھولنا شروع ہوئیں، ان میں لوٹا سازی بہت نمایاں تھی۔ سن 1955 میں اس بابت وہ عالمی ریکارڈ بنایا گیا کہ توبہ ہی بھلی۔ یعنی راتوں رات مسلم لیگ کی پوری پارلیمانی پارٹی ڈاکٹر عبدالجبار خان کی قیادت میں ریپبلیکن پارٹی میں بدل گئی اور اسکندر مرزا اور ایوب خان کے ٹولے کے ہاتھوں یہ نیلامی سرانجام پائی۔
Published: undefined
یہ وہی خان عبدالجبار خان تھے جو تقسیم سے قبل صوبہ سرحد ( خیبر پختون خوا ) کی کانگریسی حکومت کے وزیرِ اعلی تھے اور نئے ملک میں انہیں یہ الزام لگا کے وزارتِ اعلی سے چلتا کرنے کا پہلا غیر آئینی اقدام ہوا کہ انہوں نے پاکستان کے جھنڈے کو سلامی نہیں دی۔ مگر اگلے سات برس میں اسی ریاست نے ڈاکٹر خانصاحب کی 'غداری' کو حب الوطنی کی لانڈری میں دھو ڈالا اور پھر انہوں نے قائدِ اعظم کے نام کو کیش کرانے والی مسلم لیگ کو ریپبلیکن پارٹی کے کھاتے میں انکیشمنٹ کرا لیا۔ (آپ خان عبدالغفار خان کے بھائی تھے۔ مگر دونوں بھائیوں کے سیاسی اہداف میں زمین آسمان کا فرق تھا)
Published: undefined
جب ریپبلیکن پارٹی کی افادیت پوری ہو گئی تو مسلم لیگ پھر سے بحال ہو گئی اور جب پہلے مارشل لا کو شیروانی کی ضرورت پڑی تو اسی مسلم لیگ کو لوٹا سازی کے ذریعے کنونشن مسلم لیگ بنا کے ایوب خان کو تھما دیا گیا۔ پارٹی کا سیکریٹری جنرل جواں سال ذوالفقار علی بھٹو کو بنایا گیا اور جب بھٹو صاحب نے دیکھا کہ پینسٹھ کی جنگ نے صاحبِ شیروانی کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ اب وہ قومی بوجھ بن گیا ہے تو بھٹو صاحب نے اپنی جماعت تشکیل دے ڈالی۔
Published: undefined
انہوں نے عوامی لیگ کے مقابلے میں یحییٰ خان کی فوجی حکومت کا نہ صرف بھرپور ساتھ دیا بلکہ نائب وزیرِ خارجہ کے طور پر متحدہ پاکستان کے آخری دنوں میں مشرقی پاکستان پالیسی کی اقوامِ متحدہ میں بھرپور وکالت بھی کی اور واپسی پر دو لخت پاکستان میں سے یحییٰ کو یکلخت نکالے جانے کے بعد بھٹو صاحب نے پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر کا عہدہ سنبھالا۔ کیونکہ آئینی خلا بھرنے کی کوئی اور شکل نہیں تھی۔
Published: undefined
ور پھر پانچ برس بعد انہی ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کو قومی سیاست سے نکالنے کے لیے لوٹا سازی کی فرسودہ صنعت کو اپ گریڈ کر کے پولیٹیکل انجینئرنگ کے پلانٹ میں بدل دیا گیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کو اس پلانٹ میں سے گزار کے کوثر نیازی کی پروگریسو پیپلز پارٹی، غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی، حنیف رامے کی مساوات پارٹی اور پھر نوے کی دہائی میں فاروق لغاری کی ملت پارٹی اور پھر اکیسویں صدی کے شروع میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ وجود میں لائی گئی۔ جیسے ہی ان کی افادیت پوری ہوئی یہ پارٹیاں بھی غائب ہو گئیں۔
Published: undefined
مسلم لیگ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سابق فوجی آمر ضیا کے دور میں پہلے غیر جماعتی ایوان تشکیل دیا گیا۔ اس میں پیرپگاڑا کی مسلم لیگ کو بطور کھاد ڈالا گیا۔ چنانچہ یکایک پارلیمنٹ میں ایک نئی مسلم لیگ پیدا ہو گئی۔ اس مسلم لیگ کے بطن سے جونیجو لیگ اور پھر اس کی کوکھ سے مسلم لیگ نون نے جنم لیا۔ نون زیادہ سخت جان نکلی اور جب اس نے اپنے طور پر جڑیں پھیلانے کی کوشش کی تو انہی جڑوں میں سے ایک کی پیوند کاری کے ذریعے مسلم لیگ قاف پیدا ہوئی۔
Published: undefined
سن 1980 کی ہی دہائی میں سندھ کے شہری علاقوں کو پیپلز پارٹی کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایم کیو ایم کی پیوند کاری کی گئی۔ جب ایم کیو ایم نے خود کو اصلی پارٹی سمجھنا شروع کیا تو پھر اس کی شاخوں کو چھانٹ کے ایم کیو ایم حقیقی بنائی گئی۔ ایم کیو ایم غدار اور حقیقی محبِ وطن قرار پائی۔
Published: undefined
جنہوں نے ایم کیو ایم کو غدار قرار دیا تھا، انہوں نے ہی دوبارہ ضرورت کے تحت اسے حب الوطنی کا پاجامہ پہنا دیا۔ جب چند برس بعد وہ کسی کام کی نہ رہی تو اس کی ری سائیکلنگ کر کے پی آئی بی کالونی، بہادر آباد، ایم کیو ایم لندن اور پی ایس پی کو بازار میں متعارف کروایا گیا۔ پھر لندن دھڑے کو چھؤر کے باقی تمام دھڑوں کی جبری شادی کروا کے انہیں حرم میں داخل کر لیا گیا تاکہ بوقتِ حاجت ضرورت پوری ہو سکے۔
Published: undefined
اسی دوران تیسری قوت کے طور پر پی ٹی آئی کو اسمبل کیا گیا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں اس کی گھونگھٹ اٹھائی ہوئی۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ایک ذمہ دار بہو کے طور پر اتارا گیا اور پھر اس بہو کو ایم کیو ایم، قاف، باپ، جی ڈی اے، جے ڈبلیو پی وغیرہ وغیرہ جیسی سکھیاں سہیلیاں بھی فراہم کی گئیں اور آزاد الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی کا اجتماعی شہہ بالا بنا دیا گیا۔
Published: undefined
اور پھر جیسا کہ ہوتا ہے۔ صاحب کا دل بھر گیا۔ سہلیاں سکھیاں واپس اپنے اپنے استھان پر پہنچا دی گئیں۔ کل جنہیں چور اچکے قرار دے کر پی ٹی آئی کے لیے جگہ بنائی گئی تھی، انہیں چور اچکوں کی سندِ حب الوطنی کی دوبارہ تجدید ہوئی اور پھر اسی چور اچکا سانچے میں پی ٹی آئی کو فٹ کر کے کٹ ٹو سائز کرنے کی بھرپور کوشش شروع ہو گئی۔
Published: undefined
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ پی ٹی آئی نو مئی کی چھری تلے آ گئی اور اب ریورس انجینیئرنگ شروع ہو چکی ہے، جس کو جہاں سے لیز یا کرائے پر اٹھایا گیا تھا اسے وہیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔ پر ایک بات طے ہے۔ سو جوتے اور سو پیاز کا کھیل فی الحال چلتا رہے گا۔ گزشتہ روز فیس بک پر ایک میم نظر سے گزری۔ "دو ملک بیک وقت آزاد ہوئے۔ ایک سافٹ وئیر بناتا ہے۔ دوسرا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرتا ہے۔"
Published: undefined
جب کوئی جماعت جڑیں پکڑنے لگے تو اس کی جڑیں اور شاخیں چھانٹ دو۔ جب کوئی لیڈر پاپولر ہونے لگے تو پیروں تلے سے قالین کھینچ لو۔ جب معیشت قابو میں نہ آئے تو الزام اہلِ سیاست کو دے دو۔ جب قابو میں ہو تو کریڈٹ اپنی فہم و فراست کے نام کر لو۔ جب اہلِ سیاست اکھٹے ہونے لگیں تو ایک ہڈی ہوا میں اچھال دو۔
بس یہی ہے ہم جیسوں کی کہانی، جب تک چل رہی ہے تب تک چل رہی ہے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز