انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے چار نومبر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ عراق میں جو حکومت مخالف عوامی مظاہرے گزشتہ چند ہفتوں سے جاری ہیں، ان کے پس منظر میں ملک کے مغربی صوبے انبار میں اب حکومتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے جبر کا ایک نیا طریقہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
Published: undefined
اس عراقی صوبے میں سکیورٹی دستوں نے اب ایسے شہریوں کو بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے، جو انبار میں حکومت مخالف مظاہروں کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر ان کی حمایت میں مختلف پیغامات پوسٹ کر رہے تھے۔ انبار مغربی عراق کا زیادہ تر صحرائی علاقے والا ایسا صوبہ ہے، جہاں سنی مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔ اس صوبے میں اب تک کم از کم دو ایسے شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جنہوں نے اپنی اپنی فیس بک وال پر حکومت مخالف مظاہرین کی حمایت کی تھی۔ ایک تیسرے سوشل میڈیا صارف کو حکام نے پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔
Published: undefined
نیوز ایجنسی اے ایف نے نے لکھا ہے کہ دارالحکومت بغداد اور جنوبی عراق میں، جو دونوں ہی زیادہ تر شیعہ آبادی والے علاقے ہیں، گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت اور حکمران اشرافیہ کی مبینہ کرپشن کے خلاف جو عوامی مظاہرے جاری ہیں، اس احتجاج کی لہر ابھی تک مغربی عراق یا کرد آبادی والے شمالی عراق میں نہیں پہنچی۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں عام شہریوں کو یہ خوف رہتا ہے کہ اگر انہوں نے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی تو یا تو ان پر 'دہشت گرد‘ ہونے کا الزام لگا دیا جائے گا یا پھر انہیں سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کے حامی کہا جانے لگے گا۔
Published: undefined
ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنے ایک بیان میں کہا اور مغربی عراق کے شہریوں نے بھی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ مغربی عراق میں حکام عام شہریوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس طرح اور قریب سے نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی اور اس کا استعمال کسی بھی شہری کی شخصی آزادی کے خاتمے کی وجہ بن سکتا ہے۔
Published: undefined
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ایسے عراقی شہریوں کے خلاف سکیورٹی دستوں کی کارروائیوں کی وجہ صرف فیس بک ہی نہیں بلکہ ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسے ذرائع سے پوسٹ کیے یا کسی کو بھیجے جانے والے پیغامات بھی بنتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عراق کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق بغداد اور جنوبی عراق سے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران جن سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے بہت سے ابھی تک رہا نہیں کیے گئے۔
Published: undefined
انبار میں حکومت مخالف مظاہرین کے حق میں سوشل میڈیا پر پیغامات پوسٹ کرنے والے تین افراد کو تو ایسے پیغامات کی پوسٹنگ کے چند گھنٹے کے اندر اندر ہی گرفتار کر لیا گیا، جبکہ کئی صارف اپنی گرفتاری کے خوف سے زیر زمین بھی چلے گئے ہیں۔
Published: undefined
دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ کی مشرق وسطیٰ کے لیے ڈائریکٹر سارہ لی وِٹسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''جس طرح انبار میں عراقی حکام نے ایسے صارفین کی طرف سے بالکل پرامن سیاسی پیغامات پوسٹ کیے جانے کے بعد ان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، وہ عراق میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے بہت ہی بری پیش رفت ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز