پاکستان تو جیت گیا لیکن عمران خان کی حکومت ہار گئی۔ 24 اکتوبر کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے بھارت کو دس وکٹوں سے شکست دے کر ایک نئی تاریخ اور نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔ اتوار کا دن تھا لیکن اسی دن بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال کرکٹ میچ دیکھنے کی بجائے اپنی حکومت بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ وہ کبھی سعودی عرب میں وزیر اعظم عمران خان سے رابطے کی کوشش کرتے تو کبھی راولپنڈی میں کسی سے فون پر بات کرنے کے لیے نمبر ملاتے لیکن سب میچ دیکھ رہے تھے۔
Published: undefined
جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم دبئی میں بھارت کو دباؤ میں لا رہی تھی تو کوئٹہ میں بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی مخلوط حکومت کے سربراہ جام کمال کو یقین ہو چکا تھا کہ بازی الٹ چکی ہے لہذا انہوں نے استعفیٰ دیا اور گورنر بلوچستان کو بھیج دیا جنہوں نے اسے فوری طور پر منظور کر لیا۔
Published: undefined
عمران خان نے جام کمال کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے کیوں کہ طاقت ور ریاستی اداروں نے اس معاملے میں مداخلت سے گریز کیا۔ جام کمال نے صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے ایک دن قبل گھٹنے ٹیک کر اپنے ایک بیان میں کہا کہ عمران خان اپنے اردگرد موجود لوگوں پر نظر ڈالیں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے اشارہ دیا کہ انہیں ہٹانے میں کچھ وفاقی وزراء نے اہم کردار ادا کیا۔
Published: undefined
جام کمال کی حکومت ختم ہونے کے بعد بلوچستان میں جو نئی حکومت بنے گی وہ عمران خان کی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل کی اتحادی بنے گی۔ بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی۔
جس وقت جام کمال اپنا استعفیٰ گورنر کو بھیج رہے تھے عین اسی وقت وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کالعدم تحریک لبیک کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر رہے تھے۔ انہوں نے اس کالعدم تنظیم کے گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے اور ان کے خلاف مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا۔
Published: undefined
چند ماہ پہلے اپریل 2021 میں یہی شیخ رشید تھے جنہوں نے تحریک لبیک پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس تنظیم کے ہاتھوں '' 580 پولیس اہلکار زخمی اور دو شہید‘‘ ہو گئے۔ حالیہ واقعات میں بھی کچھ پولیس اہلکاروں کی جان گئی اور تحریک لبیک والے بھی سوشل میڈیا پر اپنے کئی ساتھیوں کی لاشیں دکھاتے رہے۔ وزیرداخلہ نے بڑے اعتماد سے کہا کہ تحریک لبیک والے بدھ تک اپنے مظاہرے بند کر دیں گے۔
Published: undefined
اگر بات چیت کے ذریعے یہ معاملہ طے پاتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن یہ سوال نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر تحریک لبیک کے ساتھ بات چیت کر لی جاتی ہے اور سعد رضوی کو رہا کیا جا سکتا ہے، تو رکن قومی اسمبلی علی وزیر پر مقدمات کیوں ختم نہیں ہو سکتے؟ اس سوال پر بحث ان تضادات کو سامنے لائے گی جن کی وجہ سے آج تک پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو سکی۔
Published: undefined
وزیراعظم عمران خان نے ایک نوٹیفیکیشن کے معاملے میں تو بہ ظاہر قانون کی بالادستی اور میرٹ کا مسئلہ بنایا لیکن آج تک یہ نہیں بتا سکے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ کون سے میرٹ پر پورا اترتا ہے؟ اب وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے شوکت ترین کو خیبر پختونخوا سے سینیٹر بنوانا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے نوٹیفیکیشن کے معاملے کو لٹکانا نہ تو قانون کی بالادستی کا معاملہ تھا اور نہ ہی میرٹ کا معاملہ تھا۔ وہ افغانستان کے حالات کی آڑ لے کر اس ادارےکے سربراہ کی تبدیلی کا معاملہ مؤخر کرنا چاہتے تھے کیوں کہ ان کے خیال میں میرٹ کا مطلب یہ ہے کہ جو میرے قریب ہے وہ قریب رہنا چاہیے۔ وہ کسی کو اپنے اتنے قریب رکھنے کی کوشش میں تھے کہ وہ اپنے ادارے کو بہت دور دور لگنے لگا۔ اسی حساس معاملے پر میڈیا میں کھلم کھلا بحث ہوئی۔
Published: undefined
ایک طرف شیخ رشید احمد یہ دعوے کرتے رہے کہ جمعے تک سب ٹھیک ہو جائے گا اور نوٹیفیکیشن بھی جاری ہو جائے گا دوسری طرف باخبر ذرائع کے حوالے سے دعوے کیے گئے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئندہ سال آرمی چیف مقرر کرنے پر غور ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
ہر کسی کو نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کا نوٹیفیکیشن افغانستان کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر لٹکایا گیا۔ اس تخریب میں ایک تعمیر کا پہلو یہ تھا کہ عمران خان نے ان لوگوں کے مؤقف کو غلط ثابت کر دیا جو یہ سمجھتے تھے کہ وزیراعظم کے ہر صحیح یا غلط فیصلے کو جی ایچ کیو کی غیرمشروط حمایت حاصل ہوتی ہے یا تمام اہم سیاسی فیصلے عمران خان نہیں بلکہ فوجی قیادت کرتی ہے۔
Published: undefined
اسی تاثر کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کی سیاست میں ''نکے دا ابّا‘‘ کی اصطلاح بھی متعارف ہوئی لیکن حالیہ واقعات سے پتا چلتا رہا ہے کہ ''نکّہ‘‘ کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی اپنا ابّا سمجھتا ہے۔
Published: undefined
عمران خان نے اپنے حالیہ رویے سے اس رائے کو تقویت دی کہ انہیں کسی اور سے نہیں بلکہ سب سے زیادہ خطرہ اپنے آپ سے ہے۔ وہ کبھی میڈیا سے لڑتے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن سے لڑتے ہیں اور کبھی اپنے آپ سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے مہنگائی کے خاتمے پر توجہ دینے کی بجائے ’’ن میں سے ش‘‘ نکالنے پر زیادہ توجہ دی اور ابھی تک اس میں ناکام ہیں۔
Published: undefined
ایک زمانے میں سیاسی مخالفین پر بھینس چوری کے مقدمات بنائے جاتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں سیاسی مخالفین اور ناقدین کی کردار کشی کے لیے تمام حدود کو عبور کر لیا گیا۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ کچھ ہفتے قبل سوشل میڈیا پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کی کچھ ایسی ویڈیوز پھیلائی گئیں جن کے باعث ان کے خاندان کے کچھ لوگ شدید ذہنی صدمے کا شکار ہوئے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس پر محمد زبیر کی پارٹی کے کچھ اہم رہنماؤں نے بھی ان کا مناسب دفاع نہیں کیا لیکن پھر نجانے کیسے ایک ادارے نے کچھ لوگ گرفتار کر لیے۔ گرفتار شدگان نے بتایا کہ محمد زبیر کی ویڈیوز خودساختہ تھی اور یہ ویڈیو ان لوگوں نے خود سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی۔ اس معاملے پر میری دو سے زیادہ اہم لوگوں سے بات ہوئی اور جو مجھے پتا چلا وہ بہت افسوس ناک ہے۔ ابھی تک یہ ثبوت نہیں ملا کہ محمد زبیر کے خلاف یہ سازش کس کے حکم پر تیار ہوئی لیکن بہ ظاہر یہ لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی یہ چاہتا تھا کہ مسلم لیگ ن اور فوج ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت کے کچھ وفاداروں نے بعض صحافیوں اور سیاست دانوں کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کر رکھا ہے اور بوقت ضرورت اس گفتگو کو سوشل میڈیا پر پھیلا کر صحافیوں کو بھی بدنام کرنے کی کوشش ہو گی لیکن لوگوں کے ٹیلی فون ریکارڈ کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ وہ ناصرف خود قانون توڑ رہے ہیں بلکہ عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کی اہم شخصیات کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان سب کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں۔ اسی قسم کے پیغامات دے کر عمران خان اپنی حکومت کو مضبوط نہیں بلکہ دن بہ دن کم زور کر رہے ہیں۔
Published: undefined
آج عمران خان کے اتحادیوں کی حکومت کا بلوچستان میں خاتمہ ہوا ہے اور ان کے وزیرداخلہ نے کالعدم تحریک لبیک کے سامنے ہتھیار پھینک دیے ہیں، کل کو ان کے وزراء الیکشن کمیشن کے سامنے معافیاں مانگتے نظر آئیں گے پھر کچھ وزراء پنجاب میں بھی وہی کر دکھائیں گے جو عبدالقدوس بزنجو اور ظہور بلیدی نے کوئٹہ میں کر دکھایا اور اسلام آباد میں بھی وہ کچھ ہو سکتا ہے جس کی عمران خان کو بھنک پڑ چکی ہے۔
Published: undefined
شاید اسی لیے وہ سیاسی شہید بننے کی کوشش کریں گے تاکہ تباہ حال معیشت کو اپنے سیاسی مخالفین کے گلے کا ہار بنا دیں لیکن اگر آئین و قانون کے اندر سے راستے تلاش کیے جائیں، تو شاید عمران خان ہار جائیں لیکن پاکستان جیتے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined