قاہرہ کے جنوب میں تقریباً 30 کلومیٹر دور دریافت ہونے والی یہ جگہ تقریباً 664-525 قبل مسیح کی ہے۔ یہ مقام زمین کی سطح کے اوپر زیر زمین کئی کمروں پر مشتمل ہے جو اور 30 میٹرتک گہرائی میں موجود ہیں۔
Published: undefined
یہاں سے ملنے والے بعض مادوں کے بارے میں خیال ہے کہ یہ جنوب مشرقی ایشیاء تک سے حاصل کیے جاتے تھے، جس سے اس عمل کے لیے درکار اشیاء کا وسیع تجارتی نیٹ ورک ظاہر ہوتا ہے۔
Published: undefined
ممی بنانے کے بارے میں اب تک سائنسدانوں کی معلومات کا انحصار قدیم پائپری متن، یونانی مؤرخین اور مصری ممیوں کے کیے گئے تجزیوں پر تھا۔ ان ذرائع سے پتہ چلا کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے جس میں مختلف تیلوں کے مرکب، درختوں کی گوند اور تارکول وغیرہ کا استعمال ہوتا تھا۔ سائنس دان یہ واضح کرنے کے قابل تھے کہ ان میں سے کچھ مادوں کا استعمال کیوں اور کہاں کیا گیا تھا، لیکن وہ تمام اجزاء کے لیے یہ فرق نہیں کر سکے۔ قدیم متن میں اجزاء کے نام بتائے گئے تھے، لیکن ان قدیم اصطلاحات کا ترجمہ کرنا مشکل ہے۔ ابھی بھی یہ بحث باقی ہے کہ کچھ نام کن چیزوں کے متعلق ہیں۔
Published: undefined
محققین قدیم ممیوں میں پائے جانے والے مادوں کا تجزیہ کر سکتے تھے، لیکن وہ اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکتے تھے کہ انہیں کہاں، کیوں یا کیسے استعمال کیا گیا تھا۔ بدھ یکم فروری کو تحقیقی جریدے ''نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں، مصنفین نے دریافت کیا اور تجزیہ پیش کیا کہ اس علمی خلاء کو پُر کرنے کے لیے محققین کوکس چیز کی ضرورت ہے۔ نئی دریافت میں 31 بند صندوق، جو ابھی تک باقیات سے بھرے ہوئے ہیں، 600 قبل مسیح کی حنوط کرنے کی مخصوص جگہ، جن میں کچھ میں مخصوص مادوں کو کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے اس کے بارے میں بھی ہدایات موجود تھیں۔
Published: undefined
مثال کے طور پر ایک صندوق پر درج ہے کہ اس 'مادے‘ کو سرکو حنوط کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ جبکہ دوسرے پر درج ہے کہ اسے خوشبو کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی میں 'مصریات‘ کی پروفیسر سلیمہ اکرام نے ڈی ڈبلیوکو بتایا ، ''اس مطالعہ سے پہلے ہمارے پاس چیزوں کے نام موجود تھے، لیکن ہم واقعی نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہیں۔ ہم نے فرض کیا تھا کہ وہ کچھ اور ہیں۔‘‘
Published: undefined
''سقرہ‘‘ جو ایک بہت بڑا قدیم قبرستان ہے، اس میں مطالعہ کے لیے ماہرین آثار قدیمہ، قدیم زبان کے ماہرین اور کیمیادان اکھٹے ہوئے۔ جرمنی کی لُڈوِگ میکسیمیلین یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے پروفیسر فلپ اسٹاک ہیمر نے ایک پریس بریفنگ میں کہا، ''ہم نے برتن کے اندر موجود کیمیائی مادوں کو شناخت کر کے اور اسے باہر کے لیبل کے ساتھ جوڑ کر اجزاء کی درجہ بندی کی ہے۔‘‘
Published: undefined
اس باہمی تعلق نے محققین کو قدیم مصری اصطلاحات کو نئے زاویوں سے سمجھنے میں مدد دی۔ جیسے 'انتیو‘ جسے روایتی طور پر ایک نامعلوم تیل کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہاں محققین نے پایا کہ 'انتیو‘ جانوروں کی چربی سے ملا ہوا ایک مرکب تیل تھا جس میں خوشبو اور صنوبر کا تیل بھی شامل تھا۔ سائنس دانوں کوگرم ممالک میں پائے جانے والے دو درختوں کی 'گوند‘ بھی ملی ہیں جن کا تعلق جنوب مشرقی ایشیاٰء یا افریقہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں اپنی خوشگوار خوشبو، پھپوندی لگنے سے بچاؤ اور بیکٹیریا سے بچاؤ کی خصوصیات کی حامل ہیں۔
Published: undefined
اسٹاک ہیمر نے کہا، ''اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بنیادی طور پر حنوط کیے جانے کی صنعت ابتدائی عالمگیریت کو آگے بڑھانے کا ایک قدم تھا، کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو ان اشیاء کو پورے جنوب مشرقی ایشیا سے طویل فاصلوں سے منگوانے کی ضرورت تھی۔‘‘
Published: undefined
مصر میں برآمد ہونے والے ان مرتبانوں کے تجزیہ کی ضرورت تھی۔ لیکن مصر کا قانون ان قدیم نمونوں کو ملک سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ سائنسدانوں نے مصر میں ہی نمونوں کا تجزیہ کرنے کے لیے قاہرہ کے ایک مقامی تحقیقی مرکز کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ایک شریک مصنف 'سوسن بیک‘ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس قسم کے تعاون کی کمی کی وجہ سے اس قسم کی پچھلی تحقیق اب تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
Published: undefined
نمونوں جانچنے کے لیے سائنسدانوں نے بہت سے جدید سائنسی اورکیمیائی طریقوں پر عمل کر کے ان کا تجزیہ کیا۔ یارک یونیورسٹی اور ٹیوبنگن میں ایبر ہارڈ کارلس یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے پروفیسر اور شریک مصنف اسٹیفن بکلی نے کہا، ''اسے ترکیب کے کیمیائی فنگر پرنٹ کے لحاظ سے سوچیں اور پھر ہر جزو کا اپنا کیمیکل فنگر پرنٹ بھی ہے۔‘‘
Published: undefined
نمونوں کے تجزیہ کرنے کے اس خاص طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''بنیادی طور پر، یہ عمل مرکبات کو الگ کرتا ہے اور پھر انفرادی عناصر کے سالماتی فنگر پرنٹ کو تلاش کرتا ہے، جس سے بالآخر محققین کو ممی حنوط کرنے کی اصل ترکیب کو سمجھنے میں مدد ملی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined