جرمن دارالحکومت برلن کے ایک ہوٹل میں رکھا دیو ہیکل ایکویرئیم پھٹنے کے حادثے میں جہاں انواع اقسام کی سینکڑوں مچھلیاں ہلاک ہو گئی تھیں وہاں سینکڑوں کو بچا بھی لیا بھی گیا ہے۔ جمعہ 16 دسمبر کو ریڈیسن بلیو نامی ہوٹل میں رکھے گئے اس نام نہاد ایکواڈوم ایکویرئیم کے تباہ ہونے سے دو افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔
Published: undefined
سیاحوں کی توجہ کے مرکز اس سمندری حیات کے نظارے کو ''دنیا کا سب سے بڑا فری اسٹینڈنگ سیلنڈریکل ایکویرئیم‘‘ کے طور پر سراہا جاتا تھا۔
Published: undefined
ایکویرئیم کے پھٹنے کے وقت اس میں ایک اندازے کے مطابق 1500 مچھلیاں موجود تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر مچھلیاں اس حادثے میں مر گئی تھیں۔ ہوٹل میں ٹھہرےمہمانوں نے ایکویرئیم کے زمین پر پڑے ملبے کے درمیان بہت سی مردہ مچھلیاں دیکھنے کی اطلاع دی تھی۔ ہوٹل کے سامنے برلن کی گلیوں میں بھی مردہ مچھلیاں پائی گئیں۔
Published: undefined
مقامی این ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کھارے یا سمندری پانی کی مچھلی صرف ایک یا دو گھنٹے تک پانی سے باہر زندہ رہ سکتی ہے۔ پانی سے باہر ان کے گلپھڑے خشک ہونے لگتے ہیں اور وہ آکسیجن لینے سے قاصر ہو جاتی ہیں یعنی ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
Published: undefined
جمعہ کو برلن کے انتہائی ٹھنڈے درجہ حرارت نے بھی ان مچھلیوں کے زندہ رہنے کے امکانات کو کافی حد تک کم کردیا تھا۔ جب یہ حادثہ پیش آیا اس وقت برلن میں درجہ حرارت منفی سات ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
Published: undefined
برلن فائر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کچھ مچھلیاں پانی کے ان چھوٹے چھوٹے جوہڑوں کی وجہ سے بچ گئیں جو اس ایکویرئیم کے ٹینک میں بھرے ایک ملین لیٹر پانی کے بہہ جانے کے نتیجے میں بن گئے تھے۔ فائر ڈیپارٹمنٹ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ٹینک کی باقیات میں ''کئی درجن‘‘ مچھلیاں زندہ پائی گئیں۔
Published: undefined
ہوٹل کے تہہ خانے میں موجود 400 سے 500 کے درمیان چھوٹی مچھلیاں بھی بچ گئیں۔ حفاظتی وجوہات کی بنا پر عمارت کی بجلی منقطع کر دیے جانے کے بعد ان مچھلیوں کو دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔ ان میں سے میٹھے پانی کی مچھلیوں کو برلن کے چڑیا گھر لے جایا گیا جبکہ کھارے پانی کی مچھلیوں کو سی لائف لے جایا گیا۔ سی لائف چین میں واقع آبی حیات کا ایک ایکویرئیم ہے، جس کی ایک شاخ برلن میں بھی ہے۔
Published: undefined
سی لائف ایکویرئیم اسی عمارت کے احاطے میں واقع ہے جس میں ریڈین بلیو ہوٹل ہے جہاں تباہ ہونے والا ایکوا ڈوم بھی واقع تھا۔ تاہم سی لائف نے کسی نقصان کی اطلاع نہیں دی۔
Published: undefined
جمعہ کی صبح 16 میٹر اونچے ایکویرئیم کی تباہی نے پانی، مچھلیوں، شیشے اور دیگر ملبے کو ہوٹل کی لابی اور برلن کی گلیوں میں بہا دیا تھا۔ اس تباہی کے وقت ہوٹل کے زیادہ تر مہمان لابی میں موجود نہیں تھے، جس کی وجہ سے شیشے ٹوٹنے سے صرف دو افراد زخمی ہوئے۔
Published: undefined
ملبے کی صفائی کی کوششیں ہفتے کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہیں۔ تفتیش کار اب ٹینک کے ٹوٹنے کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حکام نے جمعہ کے روز کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ یہ تباہی کسی مجرمانہ فعل کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس کی وجہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکی ہے۔
Published: undefined
برلن کی میئر فرازِسکا گِفی کا کہنا تھا کہ ٹینک کی ''حال ہی میں تزئین و آرائش کی گئی تھی۔‘‘ تاہم دیگر حکام نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات 18 سال پرانے ٹینک میں تعمیراتی مواد کے ممکنہ مسائل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
Published: undefined
برلن کے ریاستی وزیر داخلہ ایرس اسپرینجر نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ''یقیناً تفتیش مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن ابتدائی اشارے تعمیراتی میٹریل کے ناقص ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
''ڈوم ایکواری‘‘ عمارت برلن کیتھیڈرل سے صرف 350 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس میں سی لائف ایکویرئیم کے ساتھ نام نہاد ایکوا ڈوم بھی ہے۔ یہ ایک بڑا ٹینک ہے جو تقریباً 1,500 انواع اقسام کی مچھلیوں کا گھر تھا۔ یہ ایکویرئیم ایک ملین لیٹر سمندری یاکھارے پانی سے بھرا ہوا تھا، جو کہ 1000 میٹرک ٹن وزنی پانی کے برابر تھا۔
Published: undefined
DomAquaree ویب سائٹ کے مطابق ایک مقبول سیاحوں کی توجہ کا مرکز AquaDom ''دنیا کا سب سے بڑا فری اسٹینڈنگ سیلنڈریکل ایکویرئیم‘‘ ہے۔ ایکویرئیم میں 10 منٹ کی لفٹ سے سواری یہاں کی خاص باتوں میں سے ایک تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined