سماج

افغانستان میں انسانوں کی اسمگلنگ ایک منافع بخش کاروبار

افغانستان سے شہریوں کو ملک چھوڑنے میں مدد دینے والے انسانوں کے اسمگلر آج کل دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ اسمگلر افغان شہریوں کی مشکلات میں مدد کے بجائے کاروباری منافع کما رہے ہیں۔

کابل کی فائل تصویر آئی اے این ایس
کابل کی فائل تصویر آئی اے این ایس 

جب طالبان نے افغانستان میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو ایک خاتون شفیقہ سائی کو علم تھا کہ انہیں ملک سے فرار ہونا پڑے گا۔ لیکن انہیں اس بات کا ہرگز علم نہیں تھا کہ اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

Published: undefined

انسانوں کے اسمگلر افغانستان میں اس غیر یقینی صورتِ حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں میں سرحد پار کرنے کی بڑھتی خواہش اور ملک میں پھیلی بدامنی کی وجہ سے ایسے اسمگلر اپنی خدمات کے عوض بھاری رقوم کے مطالبے کرتے ہیں۔

Published: undefined

وہ افغان شہری جو گزشتہ سال 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے ملک سے فرار ہوئے ہیں، یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ سرحد پار پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے بھی ان سے رشوت طلب کی اور گھروں کے مقامی مالکان نے زمینوں اور گھروں کے کرائے دو سے تین گنا تک بڑھا دیے۔

Published: undefined

افغانستان میں طالبان کے دور حکومت اور شدید ترین حالات کے پیشِ نظر افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ لیکن پاکستان، ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک کی جانب سے سرحدوں کی بندش، ویزا اور پاسپورٹ کے حصول کے مشکل ترین مراحل کی وجہ سے اکثر لوگ غیر قانونی طریقہ کار کو ترجیح دیتے ہیں۔

Published: undefined

مکسڈ مائیگریشن سینٹر نے، جو اسمگلروں کی جانب سے وصول کردہ رقوم پر بھی نظر رکھتا ہے، کہا ہے کہ کووڈ انیس کی وبا کے دوران ان اسمگلروں نے اپنے معاوضے پہلے ہی بڑھا رکھے ہیں اور پابندیوں نے سفر مشکل تر بنا دیا ہے، تاہم گزشتہ اگست کے بعد سے افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند شہریوں کے لیے سرحد پار کرانے کی رقوم میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

Published: undefined

بے قابو ہوتے اخراجات

26 سالہ سائی اپنی والدہ اور سات بہن بھائیوں سمیت دارالحکومت کابل سے 25 اگست کو فرار ہوئیں۔ ایک غیر ملکی ادارے کی جانب سے ان کے فرار کو ممکن بنانے کے لیے اسمگلروں کو پانچ ہزار امریکی ڈالر ادا کیے گئے۔ ان کا خاندان ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اقلیتی برادری کو سن 1996 سے 2001 تک طالبان کی گزشتہ حکومت کے دوران نسل کشی کا سامنا رہا تھا۔

Published: undefined

طالبان کی اقتدار میں واپسی نے سائی کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف طالبان کے ارکان کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے میں مدد کی تھی اور طالبان حکومت کے خلاف مظاہروں میں بھی سرگرم رہی تھیں، بلکہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بھی بلند کرتی رہی تھیں۔ پاکستان میں داخل ہونے کے لیے ان کی والدہ کو بیماری کا بہانہ بنانا پڑا تھا اور یہ ترکیب کام کر گئی تھی۔

Published: undefined

سائی کا کہنا ہے کہ ملکی سرحد پار کرنے کے بعد بھی رشوت کا سلسلہ رکا نہیں تھا اور اسلام آباد پہنچنے تک انہیں کئی چیک پوسٹوں پر رشوت دینا پڑی تھی۔ اسلام آباد میں بھی ایک پاکستانی کے مقابلے انہیں کئی گنا زیادہ کرائے پر مکان لینا پڑا کیونکہ پاکستان میں افغان باشندوں کو کرائے پر مکان ملنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔

Published: undefined

انسانوں کے اسمگلروں کے بڑھتے ہوئے مالی معاوضے

انسانوں کے اسمگلر اب أفغان باشندوں سے سرحدی شہر اسپن بولدک سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچانے کے لیے اوسطاً 140 سے 193 امریکی ڈالر وصول کرتے ہیں۔ جنیوا میں قائم مکسڈ مائیگریشن سینٹر کے مطابق یہ رقم ایک سال پہلے تک صرف 90 امریکی ڈالر تھی۔

Published: undefined

عموماﹰ انسانوں کے اسمگلر یہ رقم اس بنیاد پر طے کرتے ہیں کہ سرحد پار کرنے والے کو جس راستے سے جانا ہوتا ہے، وہ کتنا مشکل راستہ ہے، موسم کیسا ہے اور جو شخص ملک چھوڑنا چاہ رہا ہے، اس کی تمام معلومات بھی اس مرحلے میں اہم ہوتی ہیں۔

Published: undefined

ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے دو بچوں سمیت اسلام آباد پہنچانے کے لیے ایک ہزار امریکی ڈالر مانگے گئے۔ عبداللہ محمدی مکسڈ مائیگریشن سینٹر سے منسلک ایک ایکسپرٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے اسمگلر‍ منظم جرائم پیشہ گروہوں کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کریمینل نیٹ ورکس اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے ایسے لوگوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

صحافی اسماعیل لالی، جو خود بھی ہزارہ برادری کے رکن ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ افغان باشندے ملک چھوڑنے کے لیے بے چین ہیں لیکن ان اسمگلروں نے لوگوں کی مجبوریوں کو اپنا کاروبار بنا رکھا ہے۔ انہوں نے خود بھی 700 امریکی ڈالر اسمگلنگ اور رشوت کے طور پرادا کیے تاکہ اسمگلر انہیں پاکستانی شہر کوئٹہ پہنچا سکیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’انسانوں کے اسمگلروں اور پاکستانی پولیس یہ دونوں کے لیے فائدہ مند کاروبار ہے۔‘‘ ان الزامات کے تصدیق کے لیے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined