سماج

سندھ میں افغان خواتین اور بچوں کی گرفتاریاں، انسانی حقوق کے کارکنوں کا الزام

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی واپسی کے لیے شروع کردہ حکومتی مہم جاری ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام لگایا ہےکہ سندھ میں افغان خواتین اور بچوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔

سندھ میں افغان خواتین اور بچوں کی گرفتاریاں، انسانی حقوق کے کارکنوں کا الزام
سندھ میں افغان خواتین اور بچوں کی گرفتاریاں، انسانی حقوق کے کارکنوں کا الزام 

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے ہفتہ 11 نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملک کے دیگر صوبوں کی طرحسندھ میں بھی قانون نافذ کرنے والے اہلکار ایسے افغان باشندوں کی تلاش میں ہیں، جو پاکستان میں مہاجرین کے طور پر رجسٹرڈ نہیں اور جن کا قیام غیر قانونی ہے۔

Published: undefined

پاکستانی حکومت نے ملک میں غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑ‌ کر واپس اپنے وطن جانے کی مہلت دی تھی۔ اس مہلت کے پور اہو جانے کے بعد ایسے افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیجنے کا جو عمل شروع کیا گیا، وہ ابھی تک جاری ہے۔

Published: undefined

ڈھائی لاکھ سے زیادہ افغان باشندے واپس جا چکے

حکام کے مطابق گزشتہ تقریباﹰ دو ہفتوں کے دوران پاکستان سے واپس افغانستان جانے والے باشندوں کی تعداد اب ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اسی دوران ملکی حکام ایسے غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کراچی سے نیوز ایجنسی اے پی نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ صوبہ سندھ میں اس کریک ڈاؤن کے دوران حکام افغان خواتین اور بچوں کو گرفتار بھی کر رہے ہیں۔

Published: undefined

اسلام آباد حکومت نے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکیوں سے متعلق جو فیصلہ کیا تھا، اس کا اطلاق ان تمام غیر ملکیوں پر ہوتا ہے، جو پاکستان میں رہتے تو ہیں مگر مہاجرین، تارکین وطن یا پھر غیر ملکیوں کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ تعداد افغان باشندوں ہی کی ہے، جو کئی لاکھ بنتی ہے۔

Published: undefined

پولیس کے شبینہ چھاپے

اس تناظر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن اور ماہر قانون منیزہ کاکڑ نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ سندھ پولیس کی طرف سے ایسے شبینہ آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں، جن کے دوران گھروں پر اچانک چھاپے مار کر افغان خاندانوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔

Published: undefined

منیزہ کاکڑ نے الزام لگایا کہ ان کارروائیوں کے دوران سندھ پولیس کی طرف سے افغان خواتین اور بچوں کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ کاکڑ نے بتایا کہ وہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی دیگر سرگرم کارکن یکم نومبر سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قائم ان مراکز کے باہر موجود ہیں، جہاں ایسے افغان باشندوں کو لایا جاتا ہے۔

Published: undefined

منیزہ کاکڑ کے مطابق وہ اور دیگر کارکن ایسے مراکز میں موجود افغان باشندوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، مگر انہیں ان مراکز کے اندر تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ ان مراکز سے ایسے افغان باشندوں کو بسوں کے ذریعے افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحد تک پہنچایاجاتا ہے، جہاں سے انہیں ان کے وطن بھیج دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

منیزہ کاکڑ کے بقول، ''جب سے اکتیس اکتوبر کی ڈیڈ لائن ختم ہوئی ہے، سندھ میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں افغان شہریوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں اور کم عمر بچے بھی۔‘‘

Published: undefined

انسانی حقوق کے پاکستانی کمیشن کی شکایت

پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کے مطابق، جو ایک غیر حکومتی ادارہ ہے، پاکستان کو افغان مہاجرین اور تارکین وطن کی میزبانی کرتے ہوئے 40 سال ہو گئے ہیں، لیکن حکومت آج تک ان سے متعلق کوئی بھی جامع طریقہ کار وضع نہیں کر سکی۔

Published: undefined

ایچ آر سی پی کی سربراہ حنا جیلانی نے اے پی کو بتایا، ''ان افغان باشندوں سے کیسے نمٹا جائے، ان کے بارے میں کون سے اقدامات کیسے کیے جائیں، اس عمل کے لیے حکومت کے پاس کوئی جامع طریقہ کار موجود نہیں کہ جو افغان مہاجرین، پناہ کے متلاشی افراد اور غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں سب کا احاطہ کرتا ہو۔‘‘

Published: undefined

حنا جیلانی نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ پاکستان میں افغان باشندوں کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے صرف سکیورٹی کے نقطہ نگاہ کے تحت ہی سوچنا درست نہیں ہو گا، بلکہ ایسے افغان باشندوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مناسب برتاؤ کرنا بھی ضروری ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined