رواں برس کے شروع میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے چین کا دورہ کیا تھا۔ تب انہوں نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ بات چیت میں ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ چین میں ہونے والے سلوک کے سلسلے میں نصیحت کی۔
Published: undefined
چینی وزیر خارجہ چِن گینگ نے اس تبصرے پر قدر ناخوشگواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، انا لینا بیئربوک کو جواب دیا، ''چین کو مغرب کے استاد‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اس تصور کو مسترد کر دیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ''عالمی معیارات‘‘ موجود ہیں۔ بیئربوک نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہ وہ دستاویز ہے جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948ء کو منظور کیا تھا۔
Published: undefined
اب جرمن وزیر خارجہ اس دستاویز میں درج اصولوں کو لاحق خطرات سے چوکنا ہو گئی ہیں۔ اس کا اظہار انہوں نے جرمنی کی گرین پارٹی کے قانون سازوں کے ایک اجتماع کو یو این ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بیان میں کیا۔ جرمن وزیر کا کہنا تھا، ''عالمی انسانی حقوق اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔‘‘انہوں نے اس موقف کی مخالفت کی کہ ''انسانی حقوق سیاست کے لیے صرف اس صورت میں اہم ہیں جب کوئی اور مسئلہ درپیش نہ ہو۔‘‘
Published: undefined
دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے صرف تین سال بعد نافذ ہونے والے اس اعلامیے کے پہلے آرٹیکل میں اس کے مقاصد کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے، ''تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وقار اور حقوق میں برابر ہیں۔‘‘
Published: undefined
جرمن وزیر خارجہ کے لیے، یہ دستاویز 75 سال بعد جرمن خارجہ پالیسی کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے چیلنجز جیسے کہ مشرق وسطیٰ اور یوکرین سے لے کر سوڈان تک کے باوجود، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو سالگرہ منانے کی اہم وجوہات نظر آئیں ۔ فولکر تُرک نے ایک بیان میں کہا، ''انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ایک معجزاتی متن ہے۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جب دنیا تباہ کن واقعات کا شکار نظر آ رہی ہے، یہ اعلامیہ عالمی حقوق کا تعین کرتا ہے اور ہر شخص کی مساوی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔‘‘
Published: undefined
فولکر تُرک نے مزید کہا، ''اس اعلامیے کے تمام تیس 30 آرٹیکلز نے ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ نسل پرستی، بدانتظامی، عدم مساوات اور نفرت کے انگاروں سے ہماری دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کی طرف سے لگائے گئے تازہ ترین تخمینے کے مطابق اس وقت دنیا بھر 110 ملین پناہ گزین ہیں اور 735 ملین افراد ایسے ہیں جن میں سے ہر کسی کے پاس کافی خوراک موجود نہیں ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پچاس ملین لوگ اس وقت جدید غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
Published: undefined
جنوبی جرمن ریاست باویریا کی یونیورسٹی آف ایئرلانگن میں انسانی حقوق کے شعبے میں ایک پروفیسر، ہائنر بیلفیلٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مجموعی طور پر، صورت حال ایک سنگین تصویر پیش کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''آمرانہ حکومتوں کی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ قائم جمہوریتوں کے اندر مطلق العنان رجحانات نے نہ صرف دھچکے لگائے ہیں بلکہ یہ مکمل طور پر تباہی کا سبب بنے ہیں۔‘‘
Published: undefined
پروفیسر، ہائنر بیلفیلٹ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے قوانین کے نفاذ کے ناقص ہونے کے باوجود کچھ پیش رفت دیکھ رہے ہیں۔ جیسے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری۔ روس تاہم، عدالت کو تسلیم نہیں کرتا اور یوکرین پر حملے کے لیے وہاں صدر پوٹن کے ساتھ انصاف کا امکان نہیں ہے۔
Published: undefined
ادھر جرمنی میں انسانی حقوق کے موقف کو بھی دھچکا لگا ہے۔ بین الاقوامی مانیٹرز نے موسمیاتی کارکنوں کے ساتھ جرمن ریاست کے برتاؤ کی وجہ سے ملک کے موقف کو ''کھلے‘‘ سے ہٹا کر '' رکاوٹ کا شکار‘‘ یا ''بند‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر جرمنی اپنے آپ کو انسانی حقوق کے چیمپئن کے طور پر دیکھتا ہے۔
Published: undefined
شام میں تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے عالمی دائرہ اختیار کے اصول کے تحت جرمن عدالتوں کے استعمال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ گزشتہ سال جنوری میں عدالت نے ایک مرکزی ملزم کو انسانیت کے خلاف جرائم، قتل، عصمت دری اور آزادی سے محرومی کے 27 الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
Published: undefined
گرین پارٹی کے اجتماع میں جرمن وزیر خارجہ بیئربوک نے انسانی حقوق کے حوالے سے خراب ریکارڈ والے ممالک کی بات کرتے ہوئے جوابدہی کے ساتھ سیاسی عمل کو متوازن کرنے کے سفارتی چیلنجز کو تسلیم کیا۔ اُدھر پروفیسر بیلیفلٹ بین الاقوامی برادری کو درپیش بحرانوں کی تعداد کے پیش نظر کہتے ہیں کہ اس توازن کو درست کرنا پالیسی سازوں کے لیے ایک اہم چیلنج بنا رہے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined