سماج

پاکستان: جادو ٹونے کے لیے انسانی اعضاء کا استعمال

پچھلے سال دسمبر میں سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 45 سالہ دیا بھیل کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ دیا بھیل کی مسخ شدہ لاش پولیس کے لیے ایک معمہ بن گئی۔

پاکستان: جادو ٹونے کے لیے انسانی اعضاء کا استعمال
پاکستان: جادو ٹونے کے لیے انسانی اعضاء کا استعمال 

دیا بھیل کے اندرونی اعضا کو اس کے جسم سے علیحدہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی کافی تفتیش کے بعد بالاخر پولیس مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن مجرم کا اقبال جرم اور قتل کی وجوہات انتہائی تشویش ناک تھی۔ مجرم ایک مقامی جادوگر تھا جس نے دیا بھیل کو صرف اس لیے قتل کیا کہ وہ اس کے اندرونی اعضاء نکال کر انہیں کالے جادو کے مقصد میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔

Published: undefined

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کے واقعات سامنے آ چکے ہیں پچھلے سال ہی ایک ڈھائی سال کے بچے کی لاش بھی اس حالت میں ملی کہ اس کے جسم پر کسی نے تیز دھار الے سے کچھ لکھا ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق اس بچے کا بہیمانہ قتل بھی جادو کے لیے ہی کیا گیا تھا۔

Published: undefined

ہمارا معاشرہ دراصل ایک انتہائی تو ہم پرست معاشرہ ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ کالی بلی گزر جائے تو کچھ برا ہوگا، نئی گاڑی خرید کر اس کے پیچھے جوتا لٹکا دیتے ہیں اسی جیسے دیگر کئی توہمات ہمارے معاشرے میں عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام توہمات ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو چکے ہیں اور نسل در نسل ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

Published: undefined

بظاہر یہ باتیں انتہائی بے ضرر نظر آتی ہیں کہ اگر کسی کا اس بات پر یقین ہے کہ کالی بلی کے راستہ کاٹنے پر کچھ برا ہوگا لیکن اگر آپ غور کریں تو ایسے ہی عقائد اس بات کی بنیاد ڈالتے ہیں کہ جادو ہمارے لیے قابل قبول بن جاتا ہے۔ ہم بچپن سے ہی بچوں کو ایسی کہانیاں سناتے ہیں جس میں کوئی کردار ایک روحانی طاقت رکھتے ہوئے کچھ مافوق الفطرت کام کر دیتا ہے۔ پھر اسی طرح سے جنات کی بے شمار کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے بچپن سے ہی ذہن جادو کے کرشمے قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

سوال یہ نہیں کہ جادو منتر میں کتنی سچائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ہر دوسرے گھر میں تمام مسائل کو جادو سے حل کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ ہر ایک گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوگا جو بتائے گا کہ ہمارے تمام مسائل اور ناکامیاں دراصل اس لیے ہیں کہ ہمارے کسی رشتہ دار نے ہم پر جادو کروا دیا ہے، تعویز ملے ہیں یا پھر ہم کسی کی نظر بد کا شکار ہو گئے ہیں۔

Published: undefined

ہمارے شہروں کی دیواریں ہمارے عقائد کی گواہ ہیں، جو ایسے جادوگروں کے اشتہارات سے بھری پڑی ہیں جن کے پاس ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ محبوب کو قدموں میں لانا ہو، امتحان میں کامیابی چاہیے، شوہر کو قابو میں کرنے کا تعویز لینا ہو یا پھر مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی ان جادوگروں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

بنگالی بابا اور عاملوں کے پاس کمزور جسم کو موٹا بنانے اور مردانہ طاقت حاصل کرنے کے راز بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ آپ چلتے پھرتے بھی کسی کو اپنا کوئی مسئلہ بتا کر حل جاننے کی خواہش کا اظہار کریں تو وہ آپ کو بیسیوں ایسے لوگوں کا پتہ بتا دے گا جو اپنی کسی شیطانی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے آپ کے محبوب کو قدموں میں لا سکتا ہے اور مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ یہ محبوب ہے یا کتا ہے جسے قدموں میں بٹھانے کی خواہش ہے۔

Published: undefined

اس کے علاوہ نوکری کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے اور اگر اپ کو بیرون ملک سفر کرنے کی خواہش ہے تو اس کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے بھی ان لوگوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے یہاں ان لوگوں کی دکانیں چمکانے والی عوام دراصل جہالت کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ تعلیم سے دوری اور کم فہمی ان لوگوں کے چنگل میں پھنسنے کی بنیادی وجہ بن جاتی ہے۔ تعلیم سے محروم ذہنی پسماندگی کا شکار شخص ایسا ہی ہے جیسے وہ کسی اندھیری جگہ پر ہو، کچھ دکھائی نہ دے اور اس اندھیرے میں بس ایک آواز سنائی دے اور وہ اس آواز کے پیچھے چل پڑے۔ ایک ایسا شخص جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو اور وسائل محدود تو پھر دماغ اسی طرح کے شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے۔

Published: undefined

ایک آس بندھ جاتی ہے کہ کوئی ہماری خواہشات پوری کرنے کا ذمہ لے رہا ہے۔ اور پھر اس سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنی مختصر سی جمع پونجی بھی ان عاملوں کے ہاتھوں لٹا دیتا ہے۔ زیادہ تر خواتین بھی ان کے چنگل میں پھنستی ہیں۔ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی محرومیاں انہیں کبھی کبھار انسانیت سے نچلے درجے پر لے جاتی ہیں۔ اور اپنی ناتمام خواہشات کی قیمت خون دے کر چکائی جاتی یے، مثلاً اپنا بچہ قدرت سے حاصل کرنے کے لیے کسی قریبی رشتہ دار کے نوزائیدہ کے گلے پر چھری پھیرنے کے واقعات تک رپورٹ ہوئے ہیں۔

Published: undefined

اکثر خواتین تو انتہائی ناسمجھی میں ان کے چنگل میں پھنستی ہیں۔ کسی ایسی جگہ کا رخ کرتی ہیں جہاں ایک نورانی شکل وصورت والے عامل بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ بظاہر مذہب کا چولا اوڑھے دم دورود کرتے نظر آنے والے بھی درحقیقت جادو اور جنوں کا الٹا سیدھا چکر چلائے اپنی دکانیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔

Published: undefined

ماں کا نام پوچھا جائے گا پھر آنکھیں بند کر کے لب ہلتے رہیں گے۔ پھر بتایا جائے گا کہ خاندان کے ہی کسی فرد نے تم پر جادو کیا ہے۔ سائل کے اصرار پر خاندان کے کسی فرد کا نام لے دیا جائے گا۔ جس پر سائل کے بدلہ لینے کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔ اور وہ پیر صاحب سے کوئی جوابی کاروائی کا تقاضہ کرے گا۔ اس حوالے سے یہ یاد رکھیں کہ اگر کسی کا نام بنگالی بابا نہیں اور وہ جانور کا خون یا بال کا استعمال نہیں کر رہا تو اس کو ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پھر وہ کوئی جائز راستہ بتائے گا۔

Published: undefined

ہماری معصوم عوام اکثر اس دھوکے میں آجاتی ہے کہ فلاں تو بہت نورانی شکل و صورت والے بابا ہیں، کوئی غلط کام نہیں کرتے، صرف تعویز ہی تو جلانے ہیں۔ یہ سب اپنے دل کو تسلی دینے کی باتیں ہیں۔ غلط کام ہمیشہ غلط ہی رہے گا۔ اپنی زندگی اور اس سے جڑی کامیابیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری خود لیں۔ اگر کوئی مسلہ درپیش ہے تو زمینی حقائق کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔ اپنی ناکامیوں کی صورت میں اپنی کمزوری کو قبول کریں۔

Published: undefined

یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ کوئی آپ پر جادو کر رہا ہے۔ اپنی محرومیوں کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھنے والے کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ آپ آم کا بیج ڈالیں اور کوئی جادو سے نیم کا درخت اگا دے۔ اس لیے اپنی ذات پر بھروسہ رکھیں اور اپنے زور بازو پر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined