ریڈیو پاکستان نے دس ستمبر کو خبر دی تھی کہ پنجاب حکومت صوبے بھر کے تقریباً دس ہزار اسکولوں کو مسلم ہینڈز کے حوالے کرنے جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی اور مسلم ہینڈز کے چھ رکنی وفد کے درمیان ہونے والی ملاقات میں طے پایا ہے۔ اگرچہ صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے اس دعوے کو ”پراپیگنڈا" قرار دے کر مسترد کیا ہے تاہم آزاد ذرائع اور خود مسلم ہینڈز کے ترجمان ریحان طاہر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے پنجاب ٹیچر یونین کے جنرل سیکرٹری لیاقت علی کا کہنا تھا کہ یہ مرحلہ وار عمل ہے، ''حکومت ابتدائی طور پر ایک ہزار اسکولوں کی نجکاری کر رہی ہے، جس کے بعد دیگر نو ہزار اسکول اور پھر سلسلہ در سلسلہ۔ ہم اسے یہیں روک دینا چاہتے ہیں تاکہ اسکول ایجوکیشن کو تباہی سے بچایا جا سکے۔"
Published: undefined
پینشن اصلاحات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ”پہلے ہماری پینشن اور دیگر مراعات کا تعین ریٹائرمنٹ کے وقت کے اسکیل کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اب حکومت اسے تبدیل کرتے ہوئے بھرتی کے وقت ملنے والے اسکیل کی بنیاد پر پیشن کا تعین کرنے جا رہی ہے۔ یوں عملی طور پر ہماری پینشن اور دیگر مراعات نصف رہ جائیں گی۔"
Published: undefined
اساتذہ، بیوروکریسی اور سیاستدان کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کے مصنف جاوید احمد ملک تعلیمی شعبہ میں بطور پالیسی ساز ایک معروف نام ہیں۔ وہ 2009ء سے 2018ء تک پنجاب کی تعلیمی اصلاحات کا براہ راست حصہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اسکولوں کی نجی کاری نہیں بلکہ انتظامی سطح پر حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر کا اشتراک ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں حکومت سرکاری اسکول اور ان کا ڈھانچہ نجی سیکٹر کی ملکیت میں دے رہی ہے، ''یہ تعلیمی دائرے کو وسیع کرنے اور اس کا معیار بہتر بنانے کے لیے دونوں کا اشتراک ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں تقریباً چالیس ہزار پرائمری اسکول ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لیے چھ اسکول ٹیچر درکار ہیں۔ تاہم کم و بیش نصف میں محض دو اساتذہ سے کام چلایا جا رہا ہے۔ اب دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جیسے وہ چل رہے ہیں ویسے ہی چلنے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ نجی سیکٹر کے فلاحی اداروں کی خدمات لی جائیں اور ان میں عملے سمیت دیگر انتظامی کمیاں دور کی جائیں۔ ایسے میں حکومتیں اسکولوں کے انتظامی امور تعلیمی میدان میں کام کرنے والے اداروں کے سپرد کرتی ہیں اور بدلے میں فی طالب علم معمولی رقم ادا کرتی ہیں۔ یہ فارمولا صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے۔"
Published: undefined
لیاقت علی کہتے ہیں ”یہ سب کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا پورے صوبائی خزانے کا بوجھ شعبہ تعلیم نے اٹھانا ہے؟ اساتذہ کی بھرتیاں کیوں نہیں کی جاتیں؟ نئے اسکول کیوں نہیں بنائے جا رہے؟" جاوید احمد ملک کہتے ہیں، ”آئیڈیل صورت میں یہ بات ٹھیک ہے۔ اس وقت پنجاب میں اساتذہ کی ایک لاکھ سے زائد آسامیاں خالی ہیں اور تقریباً گزشتہ سات برس سے اساتذہ کی نئی بھرتیاں نہیں ہوئیں۔ یہ ساتھ ساتھ ہونی چاہیے تھیں لیکن اب ناممکن ہو چکا ہے۔ کورونا کے بعد ہماری معیشت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ خزانہ نئی بھرتیاں اور پھر اساتذہ کی پنشن برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے وقتی طور پر نجی سیکٹر سے اشتراک کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں اور اس میں کوئی ہرج بھی نہیں۔"
Published: undefined
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی شعبہ تعلیم کی ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر (ای ڈی او) راشدہ خانم ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”اس سے تعلیم کا دائرہ وسیع اور معیار بہتر ہو گا۔" وہ اپنی بات ایک مثال سے واضح کرتی ہیں۔ ”رواں برس مہم چلائی گئی کہ زیادہ سے زیادہ بچے اسکولوں میں داخل کیے جائیں، بہت ہنگامہ برپا کیا گیا، بینر لگوائے گئے، مہم چلائی گئی۔ پھر پورے صوبے میں سروے کروایا گیا تو پتہ چلا کہ چھتیس اضلاع کے تمام سرکاری اسکولوں میں پانچ لاکھ سے زیادہ بچے داخل کرنے کی گنجائش نہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں تقریباً ایک کروڑ بچہ اسکول سے باہر ہے۔ باقی پچانوے لاکھ کدھر جائے گا؟ حکومت چاہ کر بھی اسے پورا کرنے سے قاصر ہے، اس کے پاس فنڈز ہی نہیں۔"
Published: undefined
وہ کہتی ہیں ”اگر یہ بچے تعلیم سے محروم رہ گئے تو اس کے اثرات برسوں پر نہیں دہائیوں پر محیط ہوں گے۔ حکومت کے پاس وسائل نہیں، نجی شعبے سے اشتراک بہترین متبادل ہے۔ ان بچوں کو سکولوں میں لانا اولین ذمہ داری ہے۔ یہ سب وہ بچے ہیں، جن کے والدین پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ اساتذہ کا احتجاج دراصل پنشن مراعات میں ممکنہ کٹوتی کا ردعمل ہے۔"
Published: undefined
نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کے مطابق ”فلاحی تنظیموں اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم بہتر ہو گا۔ ہر ضلع سے دو سے تین اسکول منتخب کر کے انہیں دانش اسکولوں کی طرح بطور ماڈل تیار کیا جائے گا۔" جاوید احمد ملک کے بقول ”یہ حکمت عملی ابھی تک کامیاب رہی ہے۔ اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ اس سے گریز کا نتیجہ لاکھوں بچوں کے تعلیم سے محرومی کی صورت میں نکلے گا۔"
Published: undefined
لیاقت علی کہتے ہیں کہ دفعہ 144 نافذ کر کے اساتذہ کو مارا گیا، ''ان کے گریبان پھاڑے گئے، دو سو سے زیادہ اساتذہ کو پکڑا گیا۔ حکومت پہلے ہمیں نظر انداز کرتی ہے اور جب ہم اپنے حق کے لیے پرامن احتجاج کریں تب لاٹھیاں برساتی ہے۔ "
Published: undefined
جاوید احمد ملک کہتے ہیں کہ حکومت کا نجی سیکٹر سے اشتراک گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے لیکن اس بار احتجاج میں زیادہ شدت دو وجوہات کی بنا پر نظر آئی۔ پہلی یہ کہ منتخب کے بجائے نگران حکومت ہے اور اس نے اساتذہ کو اعتماد میں لیے بغیر یہ قدم اٹھایا۔ دوسری وجہ پینشن مراعات میں ممکنہ اصلاحات ہیں۔"
Published: undefined
وہ کہتے ہیں، ”اساتذہ سٹیک ہولڈر ہیں انہیں اہم فیصلہ سازی میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہیں لگتا ہے جیسے ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ کوئی ان کی رائے لینے کو تیار نہیں۔جہاں تک پینشن کی بات ہے تو تنخواہ دار طبقہ بے تحاشا ٹیکس ادا کرتا ہے اسے پینشن ملنی چاہیے۔ یک طرفہ فیصلے ٹھونسنے سے ادارے چلتے ہیں نہ ملک۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined