تصویروں کو بریکنگ نیوز یا کرائسز زونز میں کہانی کے تناظر کو واضح کرنے کے لیے بطور ثبوت استعمال کیا جاتا ہے۔ ''ناقابل یقین لیکن سچی‘‘ کہانیوں کے معاملات میں کچھ تصاویر ایسی ہوتی ہیں، جو قارئین کو قائل کرتی ہیں کہ واقعی کچھ ہوا ہے۔ بعض اوقات یہ تصاویر یہ کہانی بھی بیان کرتی ہیں کہ کیا اور کیسے ہوا ہے؟
Published: undefined
مثال کے طور پر پیرس کے مشہور نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل کے جلنے کے واقعے کو ہی لے لیں۔ ٹویٹر پر وائرل ہونے کی خاطر یہ افواہ بھی پھیلائی جا سکتی تھی، لیکن جیسے ہی مختلف زاویوں اور مختلف ذرائع سے تصاویر سامنے آئیں تو یہ واضح ہو گیا کہ یہ ممکنہ طور پر ایک سچ ہے۔
Published: undefined
لیکن ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں لوگ پرانی تصاویر، تبدیل شدہ تصاویر یا مکمل طور پر جعلی تصاویر شائع کرتے ہیں اور اس کا مقصد محض توجہ حاصل کرنے کی کوشش ہوتا ہے۔
Published: undefined
جتنی بڑی اسٹوری یا پھر واقعہ ہو گا، اس بات کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے کہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر آپ کو نظر آنے والی تصاویر دراصل جعلی ہیں۔ ہم نے جعلی تصاویر کی نشاندہی کرنے کے لیے یہ گائیڈ لائنز تیار کی ہیں۔
Published: undefined
سافٹ ویئر اور ترمیم کرنے والی ایپس کی بدولت تصاویر میں تبدیلیاں کرنا اور اپنی پسند کی کہانی تیار کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ لہٰذا آپ کو شک ہو کہ کسی تصویر میں تبدیلی کی گئی ہے تو سب سے پہلے کرنے والی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ تصویر کے اوریجن کا پتا لگایا جائے۔
Published: undefined
اس کے لیے پہلا فوری طریقہ یہ ہے کہ 'ریورس امیج سرچ‘ کی جائے۔ اس سے آپ کو یہ پتا چلتا ہے کہ یہ تصویر پہلے کبھی استعمال کی گئی ہے یا نہیں، اگر ہاں! تو پھر کب اور کیسے؟
Published: undefined
تو مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں زلزلہ آیا ہے اور لوگ آن لائن تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔ آپ یا تو ایسی تصویر کو اپنے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر محفوظ کر سکتے ہیں اور پھر اسے ٹول پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں، یا پھر آپ تصویر کے یو آر ایل کو ''ریورس امیج سرچ انجن‘‘ میں پیسٹ کر سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا یہ تصویر حقیقت میں اسی علاقے کی ہے۔
Published: undefined
اس طرح آپ یہ بھی معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا یہ اسی دن کی تصویر ہے، جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے یا پھر اصل میں یہ تصویر کتنے دن، ہفتے یا مہینے پرانی ہے۔ یہ وہ پہلا طریقہ ہے، جس سے آپ جان سکتے ہیں کہ یہ تصویر جعلی یا پھر اصلی ہے۔
Published: undefined
مارکیٹ میں مختلف قسم کے مفت ریورس امیج سرچ ٹولز دستیاب ہیں، جو استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے تین مندرجہ ذیل ہیں اور ان کی کاکردگی بھی اچھی ہے۔
Published: undefined
گوگل ریورس امیج سرچ: سب سے مشہور ٹول گوگل کا ریورس امیج سرچ انجن ہے۔ اس ٹول کے دو بڑے فائدے ہیں۔ اس سرچ انجن کی مقبولیت اور رسائی کی وجہ سے گوگل نے گزشتہ برسوں میں سب زیادہ ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔ لہذا آپ کے پاس واقعی ایک بہت بڑا ڈیٹا بیس ہے، جس میں آپ تلاش کرتے ہیں۔
Published: undefined
گوگل کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں چہرے کی شناخت کا ایک مربوط ٹول ہے، جو لوگوں کی تصاویر کو تلاش کرنا بہت آسان بنا دیتا ہے۔ یہ آپ کو سائز کے لحاظ سے تصاویر کو تلاش کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔
Published: undefined
یانڈیکس اور ٹِن آئی: یہ دونوں ہی گوگل کے اچھے متبادل امیج سرچ انجن ہیں۔کام کو اچھی طرح سے کرنے کے لیے کبھی بھی صرف ایک ٹول پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ یانڈیکس (Yandex) گوگل کا ایک روسی متبادل ہے، جو آپ کو مختلف اور بعض اوقات بہتر نتائج دے سکتا ہے، خاص طور پر جب بات روسی تصاویر کی ہو۔
Published: undefined
ٹِن آئی (TinEye) کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ آپ کو تاریخ کے مطابق نتائج کو ترتیب دینے دیتا ہے۔ لہذا اس ٹول کے ذریعے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ تصویر کب اپ لوڈ کی گئی تھی۔ ٹِن آئی سرچ انجن دوسرے ٹولز کی طرح آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ تصویر کو پہلی بار فیس بک، انسٹاگرام، یا میسجنگ ایپس پر کب شیئر کیا گیا تھا لیکن اس بات کا بتا دیتا ہے کہ یہ کب اور کس ویب سائٹ یا ٹویٹر پر شائع ہوئی تھی۔
Published: undefined
ایک ٹول ایسا بھی ہے، جو تمام متعلقہ امیج سرچ انجنوں کو یکجا کرتا ہے اور آپ اسے اپنے براؤزر میں پلگ ان کے طور پر انسٹال کر سکتے ہیں۔ اس کا نام InViD/WeVerify plugin ہے۔ پلگ ان میں کچھ ایسی اضافی خصوصیات بھی ہیں، جو تصاویر کی جانچ پڑتال کرنے کے ساتھ ساتھ بہت اچھی ہیں۔ ان میں تصویری میگنیفائر، میٹا ڈیٹا تجزیہ ٹول (اگر دستیاب ہو) اور فرانزک ٹولز کا ایک سیٹ بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
کیا مئی 2021 میں اسرائیل غزہ تنازعے کے دوران دونوں فریقین کی طرف سے شیئر کی جانے والی تصاویر میں ہیرا پھیری کی گئی تھی یا یہ پرانی تھیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے ریورس امیج سرچ کا استعمال کیا اور ہمیں دونوں طرف سے ہی مثالیں ملیں۔
Published: undefined
مختلف اور پرانے تنازعات کی تصاویر کا ایک کیس یہ تھا کہ ایک تصویر میں ایک لڑکا تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے درمیان کھڑا دکھایا گیا ہے۔ اس کیس میں یہ ایک فلسطینی بچہ ہے اور تصویر میں نظر آنی والی کسی چیز کو بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ تصویر پرانی ہے۔ گیٹی امیجز کے مطابق یہ تصویر انیس اکتوبر دو ہزار چودہ کو لی گئی تھی۔ خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطینی لڑکا غزہ سٹی کے شیجائیہ محلے سے گزر رہا ہے، جو دو ہزار چودہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان پچاس روزہ لڑائی کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے کچھ میڈیا اداروں اور سوشل میڈیا پر شام میں فضائی حملوں کی تصویر کشی کے لیے اس تصویر کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
ایسے معاملات بھی ہیں، جہاں حقیقی تصاویر کو فوٹوشاپ جیسے سافٹ ویئر کے ساتھ تبدیل کر دیا جاتا ہے تاکہ ایک مختلف داستان بیان کی جا سکے۔ ایسی صورت میں تصویری فرانزک کا استعمال اس بات کا پتا لگانے میں مدد دیتا ہے کہ آیا کسی تصویر میں ہیرا پھیری یا چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ فوٹو فرانزکس (Foto Forensics) ایسا ہی ایک ٹول ہے۔ یہ ٹول اپ لوڈ کردہ تصویر کا تجزیہ کرتا ہے کہ اس میں ترمیم یا تبدیلی کی گئی ہے؟
Published: undefined
فن فیکٹ: تصاویر میں ردوبدل کے دوران شامل کی جانے والی سب سے مشہور اشیاء میں سے شارک سرفہرست ہے۔
Published: undefined
اس ٹول میں جس فیچر کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے، اس کا نام 'نوئس اینالیسز‘ ہے۔ تبدیل شدہ تصویر میں آپ 'پکسل کی کثافت‘ میں فرق دیکھ سکتے ہیں۔ جب بھی آپ کسی تصویر میں کچھ شامل کرتے ہیں تو آپ غالباً کبھی بھی اصل تصویر کی طرح 'پکسل کثافت‘ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ آپ جتنی مرتبہ تصویر کو تبدیل کریں گے، اس میں 'نوئس لیول‘ بڑھتا چلا جائے گا۔ اس ٹول میں ایک اور مددگار فیچر ایرر لیول اینالیسز (ای ایل اے) ہے۔ ای ایل اے JPEG کمپریشن کی شرح میں فرق کو نمایاں کرتا ہے۔
Published: undefined
تحفظ ماحول کی مشہور کارکن گریٹا تھنبرگ کی ''ٹائم ٹریولنگ‘‘ والی تصویر نومبر دو ہزار انیس میں وائرل ہوئی تھی۔ بہت سے ماہرین کا پہلا خیال یہی تھا کہ اس تصویر کو تبدیل کیا گیا ہے۔ آرکائیو سے نکالی گئی اس تصویر میں ایک لڑکی بالکل گریٹا تھنبرگ جیسی نظر آتی ہے۔ ہم نے اس تصویر کی جانچ کے لیے یہی ٹول استعمال کیا تھا اور یہ تصویر بالکل اصلی نکلی۔
Published: undefined
لیکن آپ کو صرف تصاویر کے ساتھ ہی محتاط نہیں رہنا چاہیے۔ اسکرین شاٹس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر یا تبدیل کرتے ہوئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دسمبر کے آغاز میں ڈوئچے ویلے کی ایک مبینہ رپورٹ کا اسکرین شاٹ گردش میں آیا، جس میں دکھایا گیا کہ ہزاروں کورونا ویکیسن مخالفین ان افراد کو بوسے دے رہے ہیں، جو کورونا پابندیوں کے خلاف احتجاج کے لیے نکلے ہیں۔ تاہم شیئر کی جانے والی یہ تصویر پرانی اور چلی کی تھی۔ ڈی ڈبلیو نے کبھی ایسی رپورٹ شائع ہی نہیں کی تھی۔ یہ اسکرین شاٹ فیک تھا۔
Published: undefined
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیے جانے والے اسکرین شاٹس اس بات کے قابل بھروسہ ثبوت نہیں ہیں کہ وہ بیانات اصل پروفائل کے ذریعے ہی شائع ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر ٹویٹ کے متن کو تصویری ایڈیٹنگ پروگرام استعمال کیے بغیر ہی سورس کوڈ کے ذریعے آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی ہوئی تبدیلیاں اصل پروفائل پر شائع نہیں ہوتیں بلکہ اسکرین شاٹس کے طور پر پھیلائی جاتی ہیں۔ آپ کسی بھی اکاؤنٹ میں کوئی بھی ممکنہ بیان شامل کر سکتے ہیں اور یہ دھوکا دہی حقیقی لگتی ہے۔
Published: undefined
آخر میں ذہن نشین کر لیں کہ کوئی بھی ٹول کامل نہیں ہے۔ اس لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہمیشہ مختلف ٹولز کے ساتھ تصاویر تلاش کریں اور پھر نتائج کا موازنہ کریں۔ اگر آپ کو کسی خاص تصویر کے بارے میں شک ہو تو تصویر کی تصدیق کے ٹولز کا استعمال کریں اور تصویر سے جڑی کہانی کو ضرور پڑھیں۔ اگر یہ بالکل حقیقی لگے تو واقعی یہ سچی تصویر ہو سکتی ہے لیکن اگر آپ کو تھوڑا بہت بھی شک ہو تو تصویر کو اس وقت تک شائع یا شیئر نہ کریں، جب تک اس کی تصدیق نہیں ہو جاتی۔ بصورت دیگر آپ بھی ان افراد کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے، جنہیں تبدیل شدہ مواد سے دھوکا دیا گیا ہے۔ (رپورٹ: راحل بیگ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز