آنا کا تعلق برلن سے ہے اور اس نے رواں سال جنوری میں ایک الیکٹرک سائیکل خریدی تھی۔ اس کی قیمت چھبیس سو یورو (تقریبا پانچ لاکھ روپے) تھی۔ تمام تر حفاظت کے باوجود چند ہی ہفتوں بعد وہ سائیکل چوری ہو گئی اور آنا نے پولیس میں رپورٹ درج کروا دی۔
Published: undefined
پچھلے برس جرمنی میں جرائم کے انسداد کے ادارے BKA کو سائیکلوں کی چوری کی دو لاکھ ساٹھ ہزار شکایات موصول ہوئیں، جن کی کل مالیت تقریباﹰ دو سو ملین یورو بنتی ہے۔ ان میں نصف انشورنس کی حامل تھی۔ جرمنی میں انشورنس سے جڑی تنظیم GDV کی ترجمان کاتھرِن ژاروش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمنی بھر میں پریمیئر کلاس اور ای بائکس کی چوری کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس ایسی چوری شدہ مہنگی سائیکلوں کی مجموعی مالیت ایک سو دس ملین یورو تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انشورنس کی مد میں اوسط معاوضہ جو دس سال پہلے چار سو یورو ہوا کرتا تھا، اب بڑھ کر سات سو تیس یورو تک پہنچ گیا ہے۔
Published: undefined
پولیس اور جی ڈی وی کے اعداد و شمار کے مطابق سائیکلوں کی چوری کی زیادہ تر وارداتیں بندرگاہی شہروں بریمن اور ہیمبرگ میں دیکھی گئیں۔ اس کے علاوہ مشرقی ریاستوں برلن، برانڈبرگ اور سیکسنی میں ایسے واقعات کی تعداد نسبتاﹰ زیادہ رہی۔ چوری شدہ سائیکلوں کی برآمدگی کی شرح نہایت کم رہی۔ پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق صرف دس فیصد جرائم ہی بے نقاب ہو پائے۔
Published: undefined
چوری شدہ سائیکلیں جرمنی میں فقط انٹرنیٹ یا فلومارکیٹ (پرانی اور سستی چیزوں کی فروخت کے بازار) میں بیچنے کے لیے لائیں گیں، تاہم مہنگی سائیکلوں کو حصوں میں توڑ دیا جاتا ہے یا انہیں مجموعی طور پر فروخت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، لیکن یورپی یونین میں یہ فعل زیادہ محفوظ نہیں کیوں کہ پولیس چوری شدہ سائیکلوں کو ان کے فریم نمبر کے ذریعے شناخت کر سکتی ہے۔ اس لیے ایسی مہنگی سائیکلیں عموماﹰ یورپی یونین سے باہر لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
Published: undefined
گو کہ یورپی یونین کی سرحدوں پر کسٹمز کی چیکنگ کی جاتی ہے، تاہم چوں کہ ہر گاڑی کو چیک کرنے کی بجائے یہ چیکنگ فقط شبے کی صورت میں یا تصادفی انداز میں کی جاتی ہے اس لیے یہ سائیکلیں یورپی یونین سے باہر چلی جاتی ہیں۔
Published: undefined
جرمنی سے چوری ہونے والی سائیکلوں کی ایک منزل یوکرائن ہوتی ہے۔ یوکرائنی انٹرنیٹ 'جرمنی اور یورپی یونین کی استعمال شدہ سائیکلوں‘ کی فروخت کے اشتہارات سے بھرا پڑا ہے۔ یوکرائن میں ایسی دکانوں کی بھی بھرمار ہے جو ایسی سائیکلیں فروخت کرتی ملتی ہیں۔ اس بابت کوئی حتمی ڈیٹا موجود نہیں کہ یوکرائن میں مجموعی طور پر کتنی سائیکلیں یورپی یونین سے پہنچتی ہیں، تاہم اندازوں کے مطابق ہر سال قریب ایک لاکھ تک ایسی سائیکلیں پہنچتی ہیں۔
Published: undefined
قانونی طور پر ایسی سائیکلوں کا یوکرائن پہنچنا اور پھر کم قیمت میں فروخت ہونا اس لیے ناممکن ہے کیوں کہ ان سائیکلوں کی قیمت اور پھر ان میں ٹرانسپورٹیشن کا معاوضہ شامل کیا جائے، تو قیمت اس سے کہیں زیادہ بنتی ہے، جتنی یوکرائن کے بازاروں میں فروخت کی جانے والی ان سائیکلوں کی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined