سماج

کوئی صحت مند انسان آخر کتنے عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے؟

انسانی عمر کی طوالت پر بحث نے سائنسدانوں کو صدیوں تک منقسم رکھا۔ حال ہی میں دنیا کی سب سے طویل العمر خاتون کی ایک سو اٹھارہ برس کی عمر میں موت کے ساتھ یہ بحث ایک بار پھر زندہ ہو گئی ہے۔

کوئی صحت مند انسان آخر کتنے عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے؟
کوئی صحت مند انسان آخر کتنے عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے؟ 

کیا ایک صحت مند انسان کی زندگی ایک حد سے زیادہ طویل نہیں ہو سکتی؟ یہ ایک ایسی دیرینہ بحث ہے جس نے سائنسدانوں کی رائے کو صدیوں تک منقسم رکھا۔ حال ہی میں ایک فرانسیسی راہبہ لُوسیل رانداں 118 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ گنیس بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق وہ دنیا کی سب سے طویل العمر خاتون تھیں۔ ان کے بعد اب یہ منفرد عالمی اعزاز اسپین کی 115 سالہ خاتون ماریا برانیاس موریرا کو منتقل ہو گیا ہے۔

Published: undefined

بہت طویل العمر انسانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد

اٹھارہویں صدی کے فرانسیسی ماہر علوم فطرت جارج لوئی لکلارک نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ایک ایسا انسان جو کبھی کسی بیماری یا حادثے کا شکار نہ ہوا ہو، اصولی طور پر زیادہ سے زیادہ 100 سال کی عمر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ تب سے لے کر آج تک طب کے شعبے میں ترقی اتنی زیادہ اور عام انسانوں کے حالات زندگی اتنے بہتر ہو چکے ہیں کہ اس اصولی عمر میں چند دہائیوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔

Published: undefined

اس حوالے سے ایک سنگ میل 1995ء میں فرانسیسی خاتون جین کلیمنٹ کا اپنی 120 ویں سالگرہ منانا تھا۔ ان کا انتقال اس کے دو سال بعد 122 برس کی عمر میں ہوا تھا۔ وہ مصدقہ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی سب سے طویل ترین عرصے تک زندہ رہنے والی خاتون تھیں۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں دنیا بھر میں 100 برس یا اس سے بھی زیادہ عمر کے انسانوں کی تعداد تقریباﹰ پانچ لاکھ ترانوے ہزار تھی۔ اس سے صرف ایک دہائی پہلے یہی تعداد تین لاکھ تریپن ہزار رہی تھی۔ ڈیٹا ایجنسی اسٹیٹِسٹا نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ دہائی میں ایک صدی سے زیادہ عمر والے انسانوں کی تعداد دو گنا سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔

Published: undefined

ایک سو دس سال یا اس سے بھی زیادہ عمر والے افراد، جنہیں supercentenarians کہا جاتا ہے، ان کی تعداد میں 1980ء سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بات آج اگر جارج لوئی لکلارک زندہ ہوتے، تو ان کے لیے بہت ہی حیران کن ہوتی۔

Published: undefined

انسانی عمر کی حد کیا ہے؟

تو پھر آخر انسانی عمر کتنی طویل ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں طبی سائنسدان آج تک کسی ایک رائے پر متفق نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ انسانی عمر ایک حد سے زیادہ لمبی نہیں ہو سکتی۔ وہ اس کی وجہ biological constraints یا حیاتیاتی عمل میں رکاوٹ ثابت ہونے والے عوامل کو قرار دیتے ہیں۔

Published: undefined

برطانوی سائنسی جریدے 'نیچر‘ کے 2016ء کے ایک شمارے میں جینیاتی ماہرین کا کہنا تھا کہ انسانی عمر کی طوالت میں 1990 کی دہائی سے کوئی بہتری نہیں آئی۔ عالمی آبادی سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ دنیا بھر میں انتہائی عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھنے کے باوجود فرانسیسی خاتون جین کلیمنٹ کی وفات کے بعد سے زیادہ سے زیادہ انسانی عمر کی حد میں کمی ہی ہوئی ہے۔

Published: undefined

اس حوالے سے آبادی سے متعلقہ امور کے فرانسیسی ماہر ژاں ماری روبین نے بتایا کہ ان ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انسانی عمر کی ایک قدرتی حد ہے اور یہ تقریباﹰ 115 سال تک ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ ماہرین اس نظریے سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔

Published: undefined

بڑھاپے میں انسانی موات بھی زیادہ

سن 2018 میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا تھا کہ جہاں انسانوں کا انتقال کر جانا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے، وہیں پر یہ تناسب 85 برس کی عمر کے بعد مقابلتاﹰ کم ہونے لگتا ہے۔

Published: undefined

ژاں ماری روبین اس ریسرچ کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر 110 سال کی عمر کے 12 افراد ہوں تو امکان یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے چھ 111 برس کی عمر تک زندہ رہیں گے، تین 112 سال تک کی عمر پائیں گے اور یہ سلسلہ اسی تناسب سے آگے بڑھے گا۔

Published: undefined

روبین اس بات کو اس طرح سمجھاتے ہیں کہ اگر سپر سینٹینیرینز کی تعداد 100 تصور کی جائے، تو ان میں سے آدھے 111 برس کی عمر کو پہنچیں گے اور باقی پچاس میں سے پچیس 112 سال تک کی عمر کو۔ باقی پچیس کی عمریں اس سے بھی زیادہ رہیں گی۔

Published: undefined

'حجم کا اثر‘

روبین ایک مخصوص عمر کے افراد کی تعداد اور طویل العمری کی اس تناسب کو 'حجم کا اثر‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اسی 'حجم کے اثر‘ کے باعث اب طویل العمری کی کوئی حد نہیں رہی۔ اس حوالے سے فرانسیسی ڈاکٹر ایرک بولانژیر کا کہنا ہے کہ جینیاتی تبدیلیوں کے باعث اب کچھ انسانوں کی عمریں 140 یا 150 برس تک بھی ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی ایک حد سے زیادہ طویل نہیں ہو سکتی؟ روبین فی الحال حتمی طور پر یہ کہنے سے گریزاں ہیں۔ لیکن وہ پرامید بھی ہیں کہ اس حوالے سے نئی معلومات سامنے آتی رہیں گی اور مستقبل میں انتہائی عمر رسیدہ انسانوں کی صحت میں بتدریج بہتری بھی آتی رہے گی۔ کئی دیگر ماہرین بھی اس سلسلے میں اپنی کوئی حتمی رائے دینے میں احتیاط برت رہے ہیں۔

Published: undefined

مستقبل کے امکانات

فرنچ انسٹیٹیوٹ آف ڈیموگرافک اسٹیڈیز (INED) کے ایک ماہر فرانس میسل کا کہنا ہے کہ فی الوقت اس موضوع پر کوئی حتمی رائے دینا ممکن ہی نہیں۔ وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ اگرچہ عالمی سطح پر بہت عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم عالمی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد آج بھی بہت تھوڑی سی ہے۔

Published: undefined

وہ کہتے ہیں، ''اس تعداد کی بنیاد پر ہم ابھی تک کوئی بامعنی اجتماعی شماریاتی اندازے نہیں لگا سکتے۔‘‘ وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ 'حجم کے اثر‘ کو پرکھنے سے پہلے supercentenarians کی تعداد میں مزید اضافے تک انتظار کرنا ضروری ہو گا۔

Published: undefined

فرانس میسل کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ طب کے شعبے میں آئندہ اس طرح کی پیش رفت دیکھنے میں آئے کہ انسانی موت سے متعلق طبی اور سائنسی ماہرین کی اب تک سمجھ بوجھ یکسر ہی بدل جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined