اسٹاک مارکیٹ میں فیس بُک کے شیئرز کی تجارت کو شروع ہوئے لگ بھگ دس سال بیت گئے ہیں۔ ڈیجیٹل امور کی ماہرہ کیرولینا میلانسی کا کہنا ہے کہ شروعات میں فیس بک کو نوجوانوں کے لیے حدیں چھونے والا اور سماجی رابطہ کاری کو ایک نئی روح بخشنے والے پلیٹ فارم کے طور دیکھا جاتا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب زیادہ تر لوگوں کو فیس بک سیاسی ہیرا پھیری اور اشتہارات کا مرکز لگتا ہے۔ فیس بک کو 'ڈیٹا کی بھوکی‘ کمپنی بھی سمجھا جاتا ہے۔
Published: undefined
کئی تنازعات کی زد میں آنے کے بعد فیس بک کا نام میٹا رکھ دیا گیا۔ اسے ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جانے لگا جس نے صارف کی رازداری اور یہاں تک کہ معاشرے کی بھلائی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
Published: undefined
دریں اثنا TikTok، LinkedIn، Pinterest، Twitter اور یہاں تک کہ ایپل بھی اب میٹا کے ساتھ آن لائن توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ فیس بک کو اب بوڑھے لوگوں کے لیے ایک جگہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
Published: undefined
قریب 2.94 بلین ماہانہ صارفین کے ساتھ، فیس بک اب بھی سوشل میڈیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔ عوام کو اس کی عادت ہے۔ ڈیجیٹل امور کے ماہر ڈیوڈ بیچری نے کہا، ''فیس بک اتنا آگے ہے کہ اسے فتح کرنا مشکل ہے۔‘‘
Published: undefined
میٹا نے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو ڈھالا ہے۔ اس نے بھی وہی کیا، جو اس کے حریفوں کو مقبول بنا رہا ہے، جیسے TikTok کے رجحان کے جواب میں Reels کی شکل میں مختصر ویڈیوز لانچ کرنا۔
Published: undefined
میٹا یا فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، میسنجر اور ایک ورچوئل رئیلٹی یونٹ کا مالک ہے، جس میں اوکولس بھی شامل ہے۔ مارکیٹنگ اسٹریٹجی فرم SociallyIN کے بانی اور چیف ایگزیکیٹو کیتھ کاکاڈیا نے کہا کہ میٹا اب بھی کسی بھی اشتہاری مہم کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ ''فیس بک پر بہت زیادہ ڈیٹا ہے، جو ہمیں واضح ہدف بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ ہم جس سے آگے نکلنا چاہیں نکل سکتے ہیں اور اس سے ہمارے گاہکوں کو فائدہ ہوتا ہے۔‘‘
Published: undefined
میٹا اب ایک پاور ہاؤس بن چکا ہے جبکہ فیس بک اسمارٹ فونز کو خطرناک حد تک لوگوں کی زندگیوں کا مرکز بنا رہا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میٹاورس میں فیس بک کے صارفین یہ دیکھنے کی بجائے کہ ان کے دوستوں نے چھٹیوں پر کیا کیا، خریداری کو ترجیح دیں گے۔ ڈیوڈ بیچری نے کہا، ''تمام برانڈز میٹاورس پر آنا چاہتے ہیں، سبھی کو خوف ہے کہ وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز