سماج

یورپی یونین کا ہنگامی خدمات مرکز کیسے کام کرتا ہے؟

ہلاکت خیز سیلاب، پورے یورپی یونین میں جنگلوں میں لگنے والی آگ اور کووڈ انیس کی عالمی وبا جیسے واقعات اس اتحاد کی بحران سے نمٹنے کی صلاحیتوں کا امتحان لے رہے ہیں۔

یورپی یونین کا ہنگامی خدمات مرکز کیسے کام کرتا ہے؟
یورپی یونین کا ہنگامی خدمات مرکز کیسے کام کرتا ہے؟ 

سلووینیا میں ہلاکت خیز سیلاب، اٹلی اور یونان کے جنگلوں میں بھڑکتی ہوئی آگ اور اسپین کی گرمی، یورپی یونین میں یہ شدید گرمی کا موسم رہا ہے۔ ایسے میں برسلز میں واقع یورپی یونین کا ایمرجنسی ریسپانس کوارڈی نیشن مرکز چوبیس گھنٹے مصروف ہے۔ ملکوں کی ہنگامی خدمات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا، ریسکیو ٹیموں اور آلات کی تنصیب کو مربوط کرنا اور ممکنہ اگلی قدرتی آفت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا، اس کی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔

Published: undefined

یورپی یونین کرائسس مینجمنٹ کے کمشنر جینز لینارسک نے پیر کے روز اعلان کیا کہ جرمنی اور فرانس تیار شدہ پل، کھدائی کے لیے مشینیں اور انجینئرنگ ٹیمیں سلووینیا بھیج رہے ہیں۔ اس دوران یونان قبرص کو جنگل کی آگ پر قابو پانے میں مدد کے لیے طیارے بھیج رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں اس نے اعلان کیا تھا کہ نو یورپی ممالک میں آگ کے "انتہائی" خطرے پر نگاہ رکھی جا رہی ہے، پانچ میں سیلاب کے انتباہات جاری کیے گئے ہیں دو ملکوں میں زیادہ درجہ حرارت یا بارش کے حوالے سے ریڈ الرٹ کیا گیا ہے۔

Published: undefined

اس طرح کے اقدامات ان دنوں عروج پر ہیں۔ سال 2018 میں یورپی یونین کے ہنگامی امداد کے مرکز کو مدد کے لیے 20 درخواستیں موصول ہوئی تھیں لیکن سن 2022 میں ان کی تعداد کئی گنا بڑھ کر230 سے زیادہ ہوگئیں۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا، یوکرین میں جنگ اور جنگلاتی آگ اور سیلاب جیسے قدرتی آفات میں اضافہ اس کا سبب ہیں۔

Published: undefined

یورپی یونین کا شہری حفاظتی میکانزم کیسے کام کرتا ہے؟

لینارسک یورپی یونین کے شہری حفاظتی میکانزم کے نگراں ہیں۔ اس کرائسس مینجمنٹ کلب کا قیام سن 2001 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد ممالک کو ہنگامی وسائل جمع کرنے اور قدرتی آفات نیز انسان ساختہ آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دینا ہے۔

Published: undefined

کوئی رکن ملک اگر خود کو ہنگامی صورت حال میں پاتا ہے، وہ بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار کو متحرک کرنے کے لیے الرٹ بھیج سکتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے سامان یا درکار مہارت کی تفصیلات بھی دے سکتا ہے۔ اس کے بعد دیگر ممالک اسے امداد کی پیش کش شروع کر دیتے ہیں اور برسلز میں واقع مرکز اس کے لیے رابطہ کار کے طورپر کام انجام دینے لگتا ہے۔

Published: undefined

یورپی یونین کے تمام 27 ممالک کے علاوہ نو قریبی ریاستوں بشمول ترکی، یوکرین اور ناروے بھی اس کلب میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، جسے دیگر ملکوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سال کے اوائل میں کینیڈا نے جنگلاتی آگ سے مقابلہ کرنے کے لیے یورپی فائر فائٹروں کو تیار کیا اور گزشتہ سال ہلاکت خیز سیلاب کا سامنا کرنے والے پاکستان میں پانی صاف کرنے والی ٹیموں اور ڈاکٹروں کو بھیجا گیا تھا۔

Published: undefined

خیموں سے لے کر جوہری آلودگی کی روک تھام تک

کووڈ انیس کی وبا یورپی یونین کے لیے ایک بڑی تنبیہ تھی۔ حکومتوں نے پایا کہ ان کے پاس وینٹی لیٹرز اور ماسک کی قلت ہے۔ وہ ہنگامی حالت میں بڑے پیمانے پر جانچ کی سہولیات یا ہسپتالوں کے قیام کے لیے تیار نہیں تھے۔ پروازوں اور سرحدوں کی بندش کا مطلب یہ تھا کہ آلات اور ادویات کے حصول کے لیے بالخصوص چین جیسے یورپ کے بہت سے معمول کے چینل بند ہوگئے یا وہ بہت سست ہوگئے۔

Published: undefined

دوبارہ ایسے حالات سے بچنے کے لیے برسلز نے سن 2020 میں پورے یورپی یونین کے لیے مزید طبی سامان کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا جبکہ پچھلے سال ایک وسیع تر ایمرجنسی ریزرو قائم کیا گیا۔ یورپی یونین نے اب طبی حفاظتی کٹ سے لے کر فوری طورپر تیار کیے جانے والے فیلڈ ہسپتالوں کے لیے ساز وسامان اکٹھا کرلیا ہے۔متعدد مقامات پر ہیلی کاپٹر، آگ بجھانے والے طیارے، خیمے اور توانائی پیدا کرنے کے لیے جنریٹرز موجود ہیں۔ سن 2022میں یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد برسلز نے کیمیاوی یا جوہری تباہی کی صورت میں آلودگی کو پاک کرنے والے آلات اور آیوڈین کی گولیوں کا ذخیرہ کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

Published: undefined

آگ پر قابو پانے والے جہازوں کے منصوبے میں پیش رفت

لیکن ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے اس ذخیرے کی فہرست طویل اور اسے پورا کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر پورے براعظم میں محسوس ہورہا ہے۔ یورپی یونین کے جوائنٹ ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ جنگل کی آگ نے اس سال یورپی یونین میں تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹیئر زمین کو جھلسا دیا ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی اور معاشی نقصان پہنچا ہے۔

Published: undefined

آنے والے سالوں میں خدشہ ہے کہ یہ جنگلاتی آگ یورپی یونین میں مزید تباہی مچا سکتی ہے۔ اس صورت حال کے مدنظر برسلز کا ہنگامی ریسپانس مرکز آگ بجھانے والے بارہ نئے طیارے خریدنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔

Published: undefined

یورپی کمیشن کی ترجمان میریم گارشیا فیررکا تاہم کہنا ہے کہ یہ اضافی طیارے ابھی دستیاب نہیں ہوں گے۔ "ہمیں اپنے بیڑے کو ترتیب دینے میں وقت لگے گا کیونکہ کچھ خاص قسم کے فائر فائٹنگ طیاروں کی عالمی پیداوار رک گئی ہے۔ مارکیٹ میں ایسے نئے فائرفائٹنگ طیاروں کی پیش کش محدود ہے جو ہمیں درپیش سنگین مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں۔" گارشیا فیرر کا کہنا ہے کہ موجودہ منصوبوں کے تحت اضافی طیارے سن 2027 تک اپنی سرگرمیاں انجام دینے لگیں گے۔

Published: undefined

ہنگامی تعاون کے حدود

یورپی کمشنر لینارسک پچھلے چند ہفتوں کے دوران ایسے فائر فائٹرز، انجینئروں اور طبی عملے کی تعریف کرتے رہے ہیں جو اپنی سرحدوں سے باہر جاکر ہنگامی صورت حال میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے پیر کے روز ایک آن لائن پوسٹ میں لکھا،"یورپی یونین کی یکجہتی کی بہترین مثال۔"

Published: undefined

لیکن یہ یکجہتی بہت آگے تک نہیں جاسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین کا شہری تحفظ کا میکانزم رضاکارانہ ہے۔ یورپی یونین کے اراکین ضرورت مند دوسری ریاستوں کی مدد کرنے کا انتخاب کرسکتے ہیں اور ایسا کرتے بھی ہیں، لیکن وہ ایسا کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ یورپی یونین کے پاس قدرتی آفات کے خلاف سرگرم عمل ہونے کے لیے قانونی اختیارات نہیں ہیں اور اسے ہنگامی سازو سامان خریدنے کے لیے رکن ممالک کی طرف سے رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔

Published: undefined

اس ضابطے میں تبدیلی کرنا یورپی یونین کے بنیادی معاہدوں کو ازسرنو لکھنے کے متراف ہوگا اور قومی حکومتیں عام طورپر برسلز کو اضافی اختیارات سونپنے کے خوف سے محتاط رہتی ہیں۔ لینارسک نے گزشتہ برس مشورہ دیا تھا کہ یورپی یونین کو اپنے سیٹ اپ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ لینارسک نے کہا تھا،"ایک طرف ہمارے سامنے یہ معاہدہ ہے، دوسری طرف یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ یورپ کو شہری حفاظت کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔"

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined