دو سو سے زائد سائنسی جرائد نے موسمیاتی تبدیلی اور ناپائید ہوتے حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت سے خطرے کی گھنٹی بجا دینے کی اپیل کی ہے۔
Published: undefined
صحت اور ماحولیات کے حوالے سے 200 سے زیادہ جرائد کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پر زور دیا گیا ہے کہ وہ موسمیاتی اور قدرتی بحران کو ایک واحد بحران قرار دیں تاکہ تباہی سے بچنے کے لیے مل کر اقدامات کیے جاسکیں۔
Published: undefined
ان مسائل پر اقوام متحدہ کی الگ الگ کانفرنسز میں غور و خوض کیا جائے گا۔ ان میں نومبر میں موسمیاتی تبدیلی پردبئی میں اقوام متحدہ کی کانفرنس آف پارٹیز(سی او پی) کی 28ویں کانفرنس اور سن 2024 میں ترکی میں حیاتیاتی تنوع پر سی او پی کی 16ویں کانفرنس شامل ہیں۔
Published: undefined
دونوں ہی کانفرنس آف پارٹیز(سی او پی) سے وابستہ ریسرچ کمیونٹی بڑی حد تک الگ الگ ہیں۔ حالانکہ سن 2020 میں ہونے والے ایک مشترکہ ورک شاپ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے مسائل سے نمٹنے کے لیے دونوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس وقت کہا تھا، "آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کو ایک ہی پیچیدہ مسئلے کے حصوں کے طورپر غور کرنے سے ہی ایسے حل تلاش کیے جاسکتے ہیں جو کمیوں سے بڑی حد تک پاک ہوسکتے ہیں اور جن سے فائدہ مند نتائج زیادہ سے زیادہ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔"
Published: undefined
ایک ایسے وقت میں جب موسمیاتی تبدیلی کو، جنگلات کی کٹائی اور فطرت کو نقصان پہنچانے کے دیگر عوامل سے زیادہ بڑی وجہ قرار دی جارہی ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فطری دنیا کے باہم تعلق کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے گزشتہ سال کہا تھا کہ "فطرت کے بغیر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔"
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بحران انسانی صحت کو براہ راست اور بالواسطہ طورپر متاثر کرتے ہیں، جس سے خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروری اشیاء متاثر ہوتی ہیں اور انتہائی موسم اور بیماری کے خطرات بڑھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق غربت میں اضافے کا ممکنہ براہ راست اثر بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور تنازعات کا باعث بنے گا۔
Published: undefined
ماحولیاتی اور سماجی عدم مساوات دونوں کو ہی حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے سب سے زیادہ غیر متناسب نقصانات کمزور کمیونٹیز پر پڑنے کا خدشہ ہے۔
Published: undefined
دسمبر 2022میں حیاتیاتی تنوع سے متعلق سی او پی نے سن 2030 تک 30 فیصد عالمی اراضی، ساحلوں اور سمندروں کو محفوظ کرنے کا عہد کیا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی سی او پی کے سابقہ وعدوں کا اعادہ کرتے ہوئے دیگر ملکوں کے لیے سالانہ 30 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ان میں سے بہت سے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا "تباہی کی دہلیز" کی جانب بڑھ رہی ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک ہی بحران کے حصے کے طور تسلیم کرکے نمٹنا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز