روسی اور یوکرینی تاریخ میں جہاں سیاسی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں وہاں مذہبی عدم آہنگی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یوکرین کی آرتھوڈوکس مسیحی آبادی روسی آرتھوڈوکس چرچ اور ایک آزاد چرچ کی طلب میں برسوں سے منقسم رہی ہے۔
Published: undefined
دونوں ملکوں میں مذہبی قوم پرستی کی آوازیں بھی بلند ہوتی رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق مذہبی وفاداری کو سیاسی وفاداری کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا، کم از کم ایسے وقت پر جب یوکرین اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔
Published: undefined
ماہرین کا خیال ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کسی حد تک یوکرین میں فوج کشی کو روسی آرتھوڈوکس چرچ کے دفاع کے ساتھ بھی نتھی کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کے دونوں دھڑوں کے سربراہان شد و مد سے اس فوج کشی کی مخالفت کا سلسلہ اپنے اپنے انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
مخالفت کے اس عمل میں یوکرینی کیتھولک عقیدے کے مسیحی بھی اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یوکرینی کیتھولک آبادی صدیوں سے روسی آرتھوڈوکس چرچ کے جبر کا شکار رہی ہے۔
Published: undefined
سن 2018 میں علیحدہ شناخت حاصل کرنے والے اور کییف میں قائم یوکرین کے آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ میٹروپولیٹن ایپیفانی نے اپنی دعا میں ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس وقت اپنے ہمسائے اور بدی کی قوت کے خلاف برسرِپیکار ہے، جس کے لیے وہ فتح کی دعا کرتے ہیں۔
Published: undefined
دوسری جانب قدیمی یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ ہے، جو روسی آرتھوڈوکس چرچ کے ماتحت ضرور ہے لیکن اپنی خود مختاری بھی رکھتا ہے۔ یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ پیٹری آرک اونوفرائی آف کییف نے اپنی دعا میں کہا، ''اے خدا! غلط فہمیوں کو دور کر، ہمارے ملک کو متحد کر اور محبت سے نواز۔‘‘
Published: undefined
اس بیان کے ویب سائٹ پر پوسٹ کیے جانے کے ایک دن بعد ہی یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ نے یہ بیان بھی پوسٹ کیے کہ اس کے ماتحت گرجا گھروں اور عقیدت مندوں کو حملوں کا سامنا ہے۔ ایک حملے کا الزام تو حریف آرتھوڈوکس چرچ پر بھی عائد کیا گیا۔
Published: undefined
مختلف سروے ظاہر کرتے ہیں کہ بیشتر یوکرینی آبادی آرتھوڈوکس چرچ سے وابستہ ہے اور ایک واضح اقلیت کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھتے ہوئے پاپائے روم کی پیروکار ہے۔ اس مسیحی اقلیتی آبادی کے علاوہ قلیل تعداد میں پروٹسٹنٹ کرسچن بھی ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ مختصر تعداد میں یہودی اور مسمان بھی وہاں آباد ہیں۔
Published: undefined
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس اور یوکرین کی ایک مشترکہ تاریخ ضرور ہے مگر اس میں مذہبی اور سیاسی تقسیم واضح طور ملتی ہے۔ روسی اور یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ میں مخاصمت بھی کوئی نئی نہیں ہے۔
Published: undefined
کسی بھی علاقے کے آرتھوڈوکس چرچ کا سربراہ قسطنطنیہ کے ایکیومینیکل پیٹری آرک کے ماتحت ہوتا ہے اور یہ ماتحتی علامتی ہوتی ہے۔ مختلف علاقوں یا ممالک کے آرتھوڈوکس چرچ اپنی خود مختاری کے حامل بھی ہوتے ہیں۔
Published: undefined
موجودہ ایکیومینیکل پیٹری آرک بارتھولومیو نے یوکرین کے نئے آرتھوڈوکس چرچ کی آزاد حیثیت کو سن 2018 میں تسلیم کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے سابق یوکرینی صدرر پیٹرو پوروشینکو کا کردار بھی اہم تھا۔ اس سے پہلے یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ پوری طرح روسی آرتھوڈوکس چرچ کے ماتحت ہوتا تھا اور اب بھی ایک بڑی یوکرینی آبادی اس چرچ سے وابستہ ہے۔
Published: undefined
سابق یوکرینی صدر پیٹرو پوروشینکو کا کہنا تھا کہ ان کے چرچ کی آزادی حقیقت میں اس کلیسا کے مغرب نواز اور یوکرینی نواز ہونے کی حیثیت کو واضح کرتی ہے۔
Published: undefined
روسی یوکرینی جنگ شروع ہونے تک یوکرینی چرچ کے کئی راہب خانے اور کلیسائی علاقے ماسکو کے پیٹری آرک کے ماتحت تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ جنگ ممکنہ طور پر یوکرین میں روسی آرتھوڈوکس چرچ کی مسلمہ حیثیت ختم کر سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @RahulGandhi