سماج

جرمن عوام کو اشیائے خوراک کے ضیاع پر گہری تشویش

جرمن عوام کی بہت بڑی اکثریت کی رائے میں جرمنی میں بہت زیادہ اشیائے خوراک ضائع کر دی جاتی ہیں اور یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔

جرمن عوام کو اشیائے خوراک کے ضیاع پر گہری تشویش
جرمن عوام کو اشیائے خوراک کے ضیاع پر گہری تشویش 

جرمنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کی وفاقی تنظیم کا نام بِٹکوم (Bitkom) ہے اور اس کی طرف سے کرائے گئے رائے عامہ کے ایک حالیہ ملک گیر جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ 93 فیصد باشندے اس بات پر ناخوش ہیں کہ یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت میں بہت بڑی مقدار میں اشیائے خوراک ضائع کر دی جاتی ہیں اور کوڑے میں پھینک دی جاتی ہیں۔

Published: undefined

اس سروے میں 68 فیصد رائے دہندگان نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اشیائے خوراک کے اس ضیاع کی روک تھام اور وسائل کے زیادہ دانش مندانہ اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کی سوچ کی ترویج کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور آن لائن سٹور بڑا کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

دس فیصد رائے دہندگان نے بتایا کہ وہ اشیائے خوراک کی آن لائن خریداری کا تجربہ کر چکے ہیں یا باقاعدگی سے اشیائے خوراک کی آن لائن شاپنگ کرتے ہیں۔ چھیالیس فیصد شہریوں نے کہا کہ کھانے پینے کی اشیاء کی آن لائن شاپنگ سے وقت بھی بچتا ہے اور رقم بھی۔ اس کے علاوہ 43 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں وہ اپنے لیے اشیائے خوراک کی آن لائن شاپنگ کرنے لگیں گے۔

Published: undefined

ضیاع سے بچنے کا طریقہ

بِٹکوم کے مطابق ڈیجیٹل سٹوروں اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے تجارت کی وجہ سے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ ایسی اشیائے خوراک بھی بہت اچھی حالت میں اور سستے داموں خریدی جا سکتی ہیں، جو مختلف شہروں اور قصبوں میں قائم سپر مارکیٹوں کی طرف سے عموماﹰ پھینک دی جاتی ہیں۔

Published: undefined

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کھانے پینے کی مصنوعات کی صنعتی پیکنگ میں کوئی خامی رہ جائے، مگر وہ اشیائے خوراک بالکل ٹھیک اور تازہ ہوں، تو بھی سپر مارکیٹیں انہیں پھینک دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر سپلائی فروخت سے زیادہ ہو تو بھی خراب ہو جانے کے خطرے کی وجہ سے ایسی اشیائے خوراک کوڑے میں پھینک دینے سے کہیں بہتر یہ ہوتا ہے کہ انہیں آن لائن فروخت کر دیا جائے۔

Published: undefined

بِٹکوم کی اس شعبے کی ماہر خاتون یانا مورٹس نے کہا کہ جرمن صارفین کو اس حوالے سے خود کو باخبر بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ان درجنوں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جو بالکل تر و تازہ اشیائے خوراک اپنے کم کاروباری اخراجات کے باعث کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں اور پھر جو کچھ خریدا جائے، وہ صارفین کے گھروں تک بھی پہنچا دیتے ہیں۔

Published: undefined

یانا مورٹس نے کہا کہ کھانے پینے کی ہر وہ شے، وہ پھل اور وہ سبزی جو کھانے والے کی پلیٹ تک پہنچنے کے بجائے کوڑے کے ڈبے میں پہنچ جائے، وہ ناانصافی ہے اور سماجی سطح پر غیر ذمے دارانہ رویہ بھی۔ انہوں نے کہا کہ اشیائے خوراک کے ضیاع سے صرف ایسی اشیاء ہی ضائع نہیں ہوتیں بلکہ وہ وسائل بھی ضائع ہو جاتے ہیں، جو کوڑے میں پھینک دیے گئے پھلوں اور سبزیوں کو اگانے کے لیے استعمال ہوئے ہوتے ہیں۔

Published: undefined

یانا مورٹس نے اس کی وضاحت کے لیے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی سپر مارکیٹ یا کوئی صارف ایک پورا تربوز کوڑے میں پھینک دے، تو اس کی خریداری کے لیے ادا کردہ رقم ضائع ہو جانے کے ساتھ ساتھ وہ سارا پانی، توانائی اور زرعی کوششیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں، جو اس تربوز کو اگانے کے لیے صرف کی گئی تھیں۔ بِٹکوم کے اس نمائندہ سروے کے لیے جرمنی بھر کے مختلف شہروں اور قصبوں میں سولہ برس سے زائد عمر کے ایک ہزار سے زائد صارفین سے ان کی تفصیلی رائے معلوم کی گئی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined